Jamshed Afaq

جمشید آفاق

جمشید آفاق کی نظم

    آسودہ حالی کے جتن

    ذات کی آسودگی کے سب جتن کرتا رہوں طائروں کے سنگ اڑ کر آسماں کی جھلملاتی نیلگوں سی گود میں اخلاص کی گرمی محبت کی تپش کو ہر گھڑی میں ڈھونڈھتا پھرتا رہوں یا کبھی اپنے خیالوں کی ردا اوڑھے میں دھرتی کے کھلے سینے پہ سر رکھ کر اور اپنی بانہیں اس کے گرد لپٹانے کی کوشش میں جہاں بھر کے گلے ...

    مزید پڑھیے