جمیل الرحمن کی نظم

    مجھے مجھ سے لے لو!

    دوزخی ساعتوں کے سبھی خواب آسیب بن کر مرے دل سے لپٹے ہوئے ہیں مری روح انجانے ہاتھوں میں جکڑی ہوئی ہے مجھے، مجھ سے لے لو کہ یہ زندگی ان عذابوں کی میراث ہے لمحہ لمحہ جو میرا لہو پی رہے ہیں زمانوں سے میں مر چکا ہوں مگر ان گنت وحشی عفریت میرے لہو کی توانائی پر آج بھی پل رہے ہیں

    مزید پڑھیے

    بے خبری

    خوف ابھی جڑا نہ تھا سلسلۂ کلام سے حرف ابھی بجھے نہ تھے دہشت کم خرام سے سنگ ملال کے لیے دل آستاں ہوا نہ تھا اقلیم خواب میں کہیں کوئی زیاں ہوا نہ تھا نکہت ابر و باد کی مستی میں ڈولتے تھے گھر صاف دکھائی دیتے تھے اس کی گلی کے سب شجر گرد مثال دستکیں در پہ ابھی جمی نہ تھیں رنگ فراق و وصل ...

    مزید پڑھیے

    باقی دائرے خالی ہیں

    رنگوں اور خوشبوؤں کی تخلیق سے پہلے مرنے والے لمحے کی نم آنکھوں سے آئندہ کے خوابوں کی عریانی کا دکھ جھانک رہا تھا خط شعور سے آج اگر ہم اس لمحے کی سمت کبھی دیکھیں تو روح میں جاگتی گیلی مٹی کی آواز سنائی دیتی ہے یہ دنیا تو مٹے ہوئے اس دائرے کی صورت کا عکس ہے جس میں سوچوں آنکھوں اور ...

    مزید پڑھیے

    نجات

    دکھتے ہوئے سینوں کی خوشبو کے ہاتھوں میں ان جلتے خوابوں کے لہراتے کوڑے ہیں جنہیں وہ اک گہنائے چاند کی ننگی کمر پہ برساتی رہتی ہے تیرگی بڑھتی جاتی ہے اور ہمارا چاند ابھی تک ایسی کہنہ سال حویلی کا قیدی ہے جسے ہوا اور بادل نے تعمیر کیا ہے جس کی گیلی دیواروں پر منڈھی ہوئی بیلوں ...

    مزید پڑھیے

    بے ہنر ساعتوں میں اک سوال

    نزول کشف کی رہ میں سفید دروازے قدم بریدہ مسافر سے پوچھتے ہی رہے ترے سفر میں تو اجلے دنوں کی بارش تھی تری نگاہوں میں خفتہ دھنک نے کروٹ لی بلا کی نیند میں بھی ہاتھ جاگتے تھے ترے تمام پہلو مسافت کے سامنے تھے ترے تری گواہی پہ تو پھول پھلنے لگتے تھے ترے ہی ساتھ وہ منظر بھی چلنے لگتے ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے آپ سے کب تک تمہارا نام پوچھوں گا

    پرندوں سے سبق سیکھا شجر سے گفتگو کی ہے سواد جاں کی خاموشی میں ٹھہرے ابر تنہائی کی اودی زرد چادر پر شعاع یاد کے ہاتھوں لکھی ہر بے نوا لمحے کی پوری داستاں میں نے پڑھی ہے نشاط انگیز راتوں اور خوابوں کے شفق آلود چہرے کو جھلستے دن کی خیرہ کن فضا میں ایک عمر رائگاں کے آئنے میں محو ہو ...

    مزید پڑھیے

    میں خود سوچتا ہوں

    حادثے زندگی کی علامت ہیں لیکن وہ اک حادثہ ہم جسے موت کہتے ہیں کب اور کیسے کہاں رونما ہو کوئی جانتا ہے بلا ریب کوئی نہیں جانتا میں خود سوچتا ہوں مجھے ایک مدت سے کیا ہو گیا ہے میرے پھیلے ہوئے جاگتے زندہ ہاتھوں کی سب انگلیاں سو چکی ہیں میرے لرزاں لبوں پر جمی پیڑیاں برق سے راکھ ہوتے ...

    مزید پڑھیے