Jafar Abbas

جعفر عباس

جعفر عباس کی غزل

    اک اک کر کے ہو گئے رخصت اب کوئی ارمان نہیں

    اک اک کر کے ہو گئے رخصت اب کوئی ارمان نہیں دل میں گہرا سناٹا ہے اب کوئی مہمان نہیں تم نے بھی سن رکھا ہوگا ہم بھی سنتے آئے ہیں جس کے دل میں درد نہ ہو وہ پتھر ہے انسان نہیں درد کڑا ہو تو بھی اکثر پتھر بن جاتے ہیں لوگ مرنے کی امید نہیں ہے جینے کا سامان نہیں کچھ مت بولو چپ ہو جاؤ ...

    مزید پڑھیے

    اب فراق و وصال بار ہوئے

    اب فراق و وصال بار ہوئے عمر گزری ہے بے قرار ہوئے اس کی بے اعتباریوں کے طفیل کتنے ہی گل یہاں پہ خار ہوئے خواب دو ایک ہی بچے زندہ قتل باقی تو بے شمار ہوئے کیوں رہا غیریت کا سا احساس جب بھی ہم اس سے کم کنار ہوئے میرے اس کے معاملے اب تو سارے عالم پہ آشکار ہوئے کچھ نئی یہ ملامتیں تو ...

    مزید پڑھیے

    ابھی تو محو تجلی ہیں سب دکانوں پر

    ابھی تو محو تجلی ہیں سب دکانوں پر پلٹ کے دیکھیے آتے ہیں کب مکانوں پر خیال خام میں گزری ہے زندگی ساری حقیقتوں کا گماں ہے ابھی فسانوں پر قدم قدم پہ تضادوں سے سابقہ ہے جہاں یقین کیسے کرے کوئی ان گمانوں پر وہ جس کی چاہ میں مر مر کے جی رہے ہیں یہاں نہ جانے کون سی بستی ہے آسمانوں ...

    مزید پڑھیے

    اپنے لیل و نہار کی باتیں

    اپنے لیل و نہار کی باتیں جبر کی اختیار کی باتیں ہر طرف کب سے ہو رہی ہیں یہاں گردش روزگار کی باتیں چار سو یاں پہ موجزن ہیں سراب زیست کے ریگزار کی باتیں اک زمانہ گزر گیا یوں ہی ہم ہیں اور دشت خار کی باتیں اس کڑی دھوپ میں مذاہب میں شجر سایہ دار کی باتیں ہے زمیں سخت آسماں چپ ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے تو سوچا بھی نہیں تھا ایسا دن بھی آئے گا

    ہم نے تو سوچا بھی نہیں تھا ایسا دن بھی آئے گا اپنوں کا یوں رخ بدلے گا سب سے جی بھر جائے گا دل میں جو ہے سب کہہ ڈالو وقت بہت کم باقی ہے کون یہاں ہے دوست تمہارا جو دشمن ہو جائے گا کیسے کیسے پیارے ساتھی کیسی کیسی باتیں تھیں کس کو کیا معلوم تھا یارو کون کہاں چھٹ جائے گا پیار کے بدلے ...

    مزید پڑھیے

    عجیب بات تھی ہر شعر پر اثر ٹھہرا

    عجیب بات تھی ہر شعر پر اثر ٹھہرا میں اس کی بزم میں کل رات با ہنر ٹھہرا ہوا جو آ کے وہ مہمان بعد مدت کے لہوں میں رقص ہوا بام پر قمر ٹھہرا ممانعت کا تقاضا تھا جس سے دور رہیں چمن میں وہ ہی شجر سب سے با ثمر ٹھہرا جنوں کی بھیک کہیں بھی نہ مل سکی اس کو گدائے ہوش یہاں گرچہ در بہ در ...

    مزید پڑھیے

    ہم ہی نے سیکھ لیا رہ گزر کو گھر کرنا

    ہم ہی نے سیکھ لیا رہ گزر کو گھر کرنا وگرنہ اس کی تو عادت ہے در بہ در کرنا نہ اپنی راہ تھی کوئی نہ کوئی منزل تھی تبھی تو چاہا تھا تجھ کو ہی ہم سفر کرنا تھیں گرچہ گرد مرے خامشی کی دیواریں تمہارے واسطے مشکل نہیں تھا در کرنا تمہاری ترک و طلب جسم و روح کی الجھن ہمیں بھی آ نہ سکا خود ...

    مزید پڑھیے

    واہ کیا دور ہے کیا لوگ ہیں کیا ہوتا ہے

    واہ کیا دور ہے کیا لوگ ہیں کیا ہوتا ہے یہ بھی مت کہہ کہ جو کہئے تو گلا ہوتا ہے کیا بتائیں تمہیں اب کیا نہیں ہوتا ہے یہاں بس یہ جانو کہ جو ہوتا ہے برا ہوتا ہے دے کے دکھ اوروں کو وہ کون سا سکھ پائے گا ایسی باتوں سے بھلا کس کا بھلا ہوتا ہے اب وہ دن دور نہیں دیکھنا تم بھی یارو امن کے ...

    مزید پڑھیے