Ishtiyaq Talib

اشتیاق طالب

اشتیاق طالب کی غزل

    ستائش جن کا پیشہ ہو گیا ہے

    ستائش جن کا پیشہ ہو گیا ہے انہیں شہرت کا چسکا ہو گیا ہے مجھے کیا تیرا سودا ہو گیا ہے جنوں کا میرے چرچا ہو گیا ہے نظر آتی نہیں سڑکوں پہ لاشیں امیر شہر اندھا ہو گیا ہے تری یادوں سے میرا دل تھا روشن ترے ملنے سے تنہا ہو گیا ہے ترے آنچل کے اڑنے سے فضا میں گلوں کا رنگ چوکھا ہو گیا ...

    مزید پڑھیے

    چاند ہیں نہ تارے ہیں آسماں کے آنگن میں

    چاند ہیں نہ تارے ہیں آسماں کے آنگن میں رقص کرتے ہیں شعلے اب تو شب کے دامن میں وحشتیں ہیں رقصندہ ہر گلی ہر آنگن میں تیرے عہد زریں میں اشک خوں ہیں دامن میں کون دھوکا دیتا ہے کون ٹوٹا کرتا ہے اب تمیز مشکل ہے راہ بر میں رہزن میں ایسے اب کے یاد آئی اس مہ دو ہفتہ کی چاندنی اتر آئی جیسے ...

    مزید پڑھیے