اسحاق وردگ کی غزل

    ہونے کا اعتبار نہیں کر رہے ہیں لوگ

    ہونے کا اعتبار نہیں کر رہے ہیں لوگ اب خود کو اختیار نہیں کر رہے ہیں لوگ اب عشق اور دشت خسارے میں ہیں میاں اب دل کا کاروبار نہیں کر رہے ہیں لوگ تیار ہے تماشا دکھانے کو ایک شخص ماحول سازگار نہیں کر رہے ہیں لوگ اب ہے نظام عشق میں ترمیم کا چلن تاروں کا بھی شمار نہیں کر رہے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اس پار کا ہو کے بھی میں اس پار گیا ہوں

    اس پار کا ہو کے بھی میں اس پار گیا ہوں اک اسم کی برکت سے کئی بار گیا ہوں خیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں ہار گیا ہوں تھامے ہوئے اک روشنی کے ہاتھ کو ہر شب پانی پہ قدم رکھ کے میں اس پار گیا ہوں دروازے کو اوقات میں لانے کے لیے میں دیوار کے اندر سے کئی بار ...

    مزید پڑھیے

    کاغذ کے بنے پھول جو گلدان میں رکھنا

    کاغذ کے بنے پھول جو گلدان میں رکھنا تتلی کی اداسی کو بھی امکان میں رکھنا میں عشق ہوں اور میرا نہیں کوئی ٹھکانہ اے حسن مجھے دیدۂ حیران میں رکھنا شاید میں کسی اور زمانے میں بھی آؤں ممکن تو نہیں ہے مگر امکان میں رکھنا اب مرکزی کردار تمہارا ہے مرے دوست تم میری کہانی کو ذرا دھیان ...

    مزید پڑھیے

    دوسرا کنارا بھی بے وفا کنارا ہے

    دوسرا کنارا بھی بے وفا کنارا ہے اب تو ڈوب جانا ہی آخری سہارا ہے میں اتر نہیں سکتا دوسرے کنارے پر دوسرا کنارا تو دوسرا کنارا ہے مجھ پہ اب محبت میں زہر پینا واجب ہے میں نے دل نہیں ہارا حوصلہ بھی ہارا ہے آسماں کی وسعت میں جانے اب کہاں ہوگا وہ جو میری قسمت کا بے خبر ستارا ہے وقت ...

    مزید پڑھیے

    اپنا ہی کردار رد کرتا ہوا

    اپنا ہی کردار رد کرتا ہوا میں کہانی مستند کرتا ہوا اک نیا نقشہ بنا لایا ہوں میں شہر کو صحرا کی حد کرتا ہوا شرح دل کی لکھ رہا ہوں میں نئی ہر پرانی سوچ رد کرتا ہوا عشق لکھے گا نئے اعراب اب میرے دل کو شد و مد کرتا ہوا اس طرح سے مستند ہوتا گیا اک قلندر خود کو رد کرتا ہوا اور پھر دیوار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2