Irshad Husain Kazmi

ارشاد حسین کاظمی

ارشاد حسین کاظمی کی غزل

    آنے لگی ہے زہر کی خوشبو شمال سے

    آنے لگی ہے زہر کی خوشبو شمال سے جھلکے گا رنگ خون کا عصر زوال سے ہیں درج آنے والی رتوں کے حساب میں پتے جھڑے ہوئے شجر ماہ و سال سے خواہش کے کاروبار کی رسمیں بدل گئیں ملتے ہیں پھول بڑھ کے خود اپنے مآل سے گلدان میں سجی ہوئی کلیوں کو کیا خبر کیا پوچھتی ہے باد صبا ڈال ڈال سے ظاہر ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ڈھلوان پر گلاب ترائی میں گھاس ہے

    ڈھلوان پر گلاب ترائی میں گھاس ہے اس خطۂ چمن کو مرے خوں کی پیاس ہے موسم کی آندھیوں میں بکھر جائے ٹوٹ کر اس کارگاہ شیشہ گری کو یہ راس ہے میں جانتا ہوں شرم سے بوجھل نگاہ کو یہ ننگی خواہشوں کا پرانا لباس ہے جو بجھ چکا اس ایک ستارے کی روشنی اب بھی سواد شہر دل و جاں کے پاس ہے ہے یاد ...

    مزید پڑھیے

    چلو اس بے وفا کو میں بھلا کر دیکھ لیتا ہوں

    چلو اس بے وفا کو میں بھلا کر دیکھ لیتا ہوں یہ شعلے خشک پتوں میں چھپا کر دیکھ لیتا ہوں کسی صورت گزشتہ ساعتوں کے نقش مٹ جائیں میں دیواروں سے تصویریں ہٹا کر دیکھ لیتا ہوں جو اتنی پاس ہیں وہ صورتیں دھندلائیں گی کیسے خود اپنی سانس شیشے پر لگا کر دیکھ لیتا ہوں بہت دل کو ستاتا ہے اگر ...

    مزید پڑھیے