Irfan Waheed

عرفان وحید

عرفان وحید کی غزل

    زعم ہستی مرے ادراک سے باندھا گیا ہے

    زعم ہستی مرے ادراک سے باندھا گیا ہے اور بدن طرۂ پیچاک سے باندھا گیا ہے ایک آنسو تری پوشاک سے باندھا گیا ہے یا ستارا کوئی افلاک سے باندھا گیا ہے عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے اور پھر گردش افلاک سے باندھا گیا ہے خاک اڑاتا ہوں میں تا عمر نبھانے کے لیے ایک رشتہ جو مرا خاک سے ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا

    یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا میں تھا لہو لہو وہ تماشائیوں میں تھا چہرے سے میں نے غم کی لکیریں مٹا تو دیں لیکن جو کرب روح کی گہرائیوں میں تھا وہ حوصلہ کہ پھیر دے جو آندھیوں کے رخ وہ حوصلہ ابھی مری پسپائیوں میں تھا دیتا ہے روز اک نیا الزام آج کل پہلے وہ شخص بھی مرے ...

    مزید پڑھیے

    پس سکوت سخن کو خبر بنایا جائے

    پس سکوت سخن کو خبر بنایا جائے فصیل حرف میں معنی کا در بنایا جائے حساب سود و زیاں ہو چکا بہت اب کے وفور شوق کو عرض ہنر بنایا جائے لگن اڑان کی دل میں ہنوز باقی ہے کٹے پروں ہی کو اب شاہ پر بنایا جائے کسی پڑاؤ پہ پہنچیں گے جب تو سوچیں گے ابھی سے کیا کوئی زاد سفر بنایا جائے فراز دار ...

    مزید پڑھیے

    وہ مہرباں ہو تو صحرا بھی گلستاں ہو جائیں

    وہ مہرباں ہو تو صحرا بھی گلستاں ہو جائیں اگر خفا ہو تو برہم ستار گاں ہو جائیں ہوائیں شوق سمندر کی مہرباں ہو جائیں طلب سفینہ ہو ارمان بادباں ہو جائیں بیاس دوستی اتنے بھی اب نہ دو الزام کہ ہم خود اپنی طرف سے بھی بد گماں ہو جائیں قلندروں کے لیے شہر کیا ہے صحرا کیا غرض تو ٹھور ...

    مزید پڑھیے

    ہزار رنج سفر ہے حضر کے ہوتے ہوئے

    ہزار رنج سفر ہے حضر کے ہوتے ہوئے یہ کیسی خانہ بدوشی ہے گھر کے ہوتے ہوئے وہ حبس جاں ہے برسنے سے بھی جو کم نہ ہوا گھٹن غضب کی ہے اک چشم تر کے ہوتے ہوئے مرے وجود کو پیکر کی ہے تلاش ابھی میں خاک ہوں ہنر کوزہ گر کے ہوتے ہوئے سحر اجالنے والے کرن کرن کے لیے ترس رہے ہیں فروغ سحر کے ہوتے ...

    مزید پڑھیے

    اس سے تسلیم بس یوں ہی سی ہے

    اس سے تسلیم بس یوں ہی سی ہے برف احساس کی جمی سی ہے چلئے احباب کو تو جان گئے یہ مصیبت تو عارضی سی ہے کچھ تو چارہ گری کرے کوئی آج کچھ درد میں کمی سی ہے آج چپکے سے کس کی یاد آئی دل کے آنگن میں چاندنی سی ہے کس نے ترک وفا کیا پہلے یہ شکایت بھی باہمی سی ہے حسرتو اب تو ہو چلو خاموش نبض ...

    مزید پڑھیے

    ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے

    ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے قاتل بھی وہی اور نگہباں بھی وہی ہے بربادیٔ گلشن کا جو سامان بنا تھا بربادیٔ گلشن پہ پشیماں بھی وہی ہے ہے نسبت نومیدیٔ تاریکیٔ شب جو اک مژدۂ امید فروزاں بھی وہی ہے پانی میں تلاطم بھی اسی چاند کے باعث اور اپنی ادا دیکھ کے حیراں بھی وہی ...

    مزید پڑھیے

    دیں دیدۂ خوش خواب کو تعبیر کہاں تک

    دیں دیدۂ خوش خواب کو تعبیر کہاں تک اے وقت ترے جبر کی توقیر کہاں تک کب تک کہ کہو جذبۂ تعمیر کو تخریب اے اہل صفا جھوٹ کی تشہیر کہاں تک اب دوست بنانے کا ہنر بھی ذرا سیکھیں کی جائے مہ و نجم کی تسخیر کہاں تک اے شہر انا تیرے فریبوں کے بھرم میں آئینہ مثالوں کی ہو تحقیر کہاں تک ہر آن ...

    مزید پڑھیے

    یہ دانۂ ہوس تمہیں حرام کیوں نہیں رہا

    یہ دانۂ ہوس تمہیں حرام کیوں نہیں رہا اڑان کا وہ شوق زیر دام کیوں نہیں رہا مسافتوں کا پھر وہ اہتمام کیوں نہیں رہا سفر درون ذات بے قیام کیوں نہیں رہا بکھر گئی ہے شب تو تیرگی کا راج کیوں نہیں جو بام پر تھا وہ مہ تمام کیوں نہیں رہا ہمارے قتل پر اصول قتل گہ کا کچھ لحاظ صلیب و دار کا ...

    مزید پڑھیے

    سر آئینہ حیرانی بہت ہے

    سر آئینہ حیرانی بہت ہے ستم گر کو پشیمانی بہت ہے خرد کی گرچہ ارزانی بہت ہے جنوں کی جلوہ سامانی بہت ہے سبھی وحشی یہیں پر آ رہے ہیں مرے گھر میں بیابانی بہت ہے یہاں ہر چند سب خوش پیرہن ہیں مگر دیکھو تو عریانی بہت ہے نہ جانے کب مری مٹھی میں آئے وہ اک لمحہ کہ ارزانی بہت ہے عجب ...

    مزید پڑھیے