عرفان احمد کی غزل

    تھوڑی سی دور تیری صدا لے گئی ہمیں

    تھوڑی سی دور تیری صدا لے گئی ہمیں پھر اک ہوائے تند اڑا لے گئی ہمیں ندی کنارے کیا گئے پانی کی چاہ میں ندی سمندروں میں بہا لے گئی ہمیں قسمت میں تشنگی سے ہی مرنا لکھا تھا پھر کیوں ساحلوں پہ گرم ہوا لے گئی ہمیں نشہ تھا زندگی کا شرابوں سے تیز تر ہم گر پڑے تو موت اٹھا لے گئی ہمیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    نقاب چہرے سے اس کے کبھی سرکتا تھا

    نقاب چہرے سے اس کے کبھی سرکتا تھا تو کالے بادلوں میں چاند سا چمکتا تھا اسے بھی خطۂ سر سبز مل گیا شاید وہ ایک ابر کا ٹکڑا جو کل بھٹکتا تھا وہ میرے ساتھ جو چلتا تھا گھر کے آنگن میں تو ماہتاب بھی پلکیں بہت جھپکتا تھا یہ کہہ کے برق بھی برسات میں بہت روئی کہ ایک پیڑ چمن میں غضب مہکتا ...

    مزید پڑھیے

    سخت ویراں ہے جہاں تیرے بعد

    سخت ویراں ہے جہاں تیرے بعد کوئی تجھ سا ہے کہاں تیرے بعد کب تلک آہ و فغاں تیرے بعد خیمۂ دل ہے دھواں تیرے بعد جانے کس شہر میں آباد ہے تو ہم ہیں برباد یہاں تیرے بعد ہجرتیں کر گئے امکاں کے طیور اب یقیں ہے نہ گماں تیرے بعد ایسا عالم بھی نہ دیکھا تھا کبھی خالی خالی ہے مکاں تیرے بعد

    مزید پڑھیے

    ایک زہریلی رفاقت کے سوا ہے اور کیا

    ایک زہریلی رفاقت کے سوا ہے اور کیا تیرے میرے بیچ وحشت کے سوا ہے اور کیا اب نہ ہے وہ نرم لہجہ اور نہ ہیں وہ قہقہے تیرا ملنا اک اذیت کے سوا ہے اور کیا زعم تھا مجھ کو بھی تیری چاہتوں کا لیکن اب میرے چہرے پر ندامت کے سوا ہے اور کیا ایک زہر آمیز چپ ہے اور آنکھوں میں جلن تیرے دل میں اب ...

    مزید پڑھیے

    ہے درد کے انتساب سا کچھ

    ہے درد کے انتساب سا کچھ وہ یاد آنگن میں خواب سا کچھ وہ آرزوئیں وہ تشنہ کامی حد نگہ تک سراب سا کچھ وہ ہجرتوں کے اداس موسم سفر سفر اضطراب سا کچھ ہر اک تعلق شکست مائل روش روش انقلاب سا کچھ وہ مشعل جاں بجھی بجھی سی کوئی بکھرتے گلاب سا کچھ وہ پھول ہاتھوں میں سنگ پارے وہ ایک پیسہ ...

    مزید پڑھیے