Iram Lakhnavi

ارم لکھنوی

ارم لکھنوی کی غزل

    دنیا کا غم ہی کیا غم الفت کے سامنے

    دنیا کا غم ہی کیا غم الفت کے سامنے باطل ہے بے وجود حقیقت کے سامنے حسرت سے چپ ہوں میں تری صورت کے سامنے جیسے گناہ گار ہو جنت کے سامنے رسوائیاں ہزار ہوں بربادیاں ہزار پروا کسے ہے تیری محبت کے سامنے اے ناز عشق دار و رسن کی بساط کیا میرے وفور شوق شہادت کے سامنے اے حسن بے مثال مجال ...

    مزید پڑھیے

    درد کا جب تک مزا حاصل نہ تھا

    درد کا جب تک مزا حاصل نہ تھا دل کہے جانے کے قابل دل نہ تھا ہائے ان مجبوریوں کو کیا کروں میں بھی خود فریاد کے قابل نہ تھا بھیک رکھ لو جو دعائیں دے گیا وہ فقیر عشق تھا سائل نہ تھا او لٹانے والے گلہائے کرم سب کا دل تھا کیا ہمارا دل نہ تھا جاں بری مشکل بھی ہم کو اے ارمؔ وہ بچا لیتے ...

    مزید پڑھیے

    ہم باغ تمنا میں دن اپنے گزار آئے

    ہم باغ تمنا میں دن اپنے گزار آئے آئے نہ بہار آخر شاید نہ بہار آئے رنگ ان کے تلون کا چھایا رہا محفل پر کچھ سینہ فگار اٹھے کچھ سینہ فگار آئے فطرت ہی محبت کی دنیا سے نرالی ہے ہو درد سوا جتنا اتنا ہی قرار آئے کیا حسن طبیعت ہے کیا عشق کی زینت ہے دل مٹ کے قرار آئے رنگ اڑ کے نکھار ...

    مزید پڑھیے

    جسے میں سمجھتا ہوں قاتل یہی ہے

    جسے میں سمجھتا ہوں قاتل یہی ہے محبت اسی سے ہے مشکل یہی ہے عداوت ہوئی برق سے باغباں سے نشیمن بنانے کا حاصل یہی ہے تڑپنا برابر تڑپتے ہی رہنا ترے در پہ انداز بسمل یہی ہے بہت دور منزل مگر ہر قدم پر تھکن کا تقاضا کہ منزل یہی ہے مرے قتل کا ذکر ہے اور وہ چپ ہے خموشی نہ کہہ دے کہ قاتل ...

    مزید پڑھیے

    اپنے غریب دل کی بات کرتے ہیں رائیگاں کہاں

    اپنے غریب دل کی بات کرتے ہیں رائیگاں کہاں یہ بھی نہ ہم سمجھ سکے اپنا کوئی یہاں کہاں ان کے لیے وہ آسمان میرا گزر وہاں کہاں میرے لیے یہی زمین آئیں گے وہ یہاں کہاں سامنا ان کا جب ہوا آنکھوں نے جو کہا کہا دل میں ہزار اشتیاق ان میں مگر زباں کہاں اف یہ مآل جستجو بعد کمال جستجو پہنچے ...

    مزید پڑھیے