Iqbal Umar

اقبال عمر

اقبال عمر کی غزل

    اسی سبب سے تو ہم لوگ پیش و پس میں ہیں

    اسی سبب سے تو ہم لوگ پیش و پس میں ہیں اسی سے بیر بھی ہے اور اسی کے بس میں ہیں قفس میں تھے تو گماں تھا کھلی فضاؤں کا کھلی فضا میں یہ احساس ہم قفس میں ہیں یہ اور بات کہ ہم فائدہ اٹھا نہ سکیں کچھ ایسے لوگ ہماری بھی دسترس میں ہیں ہر ایک شہر کی کایا پلٹ گئی لیکن ہر ایک شہر میں باقی ...

    مزید پڑھیے

    موسموں کی باتوں تک گفتگو رہی اپنی

    موسموں کی باتوں تک گفتگو رہی اپنی میں نے کب کہی اپنی تم نے کب سنی اپنی ختم ہی نہیں ہوتے سلسلے سوالوں کے سلسلے سوالوں کے اور خامشی اپنی ایک حد پہ قائم ہے گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے تیرگی زمانے کی اور روشنی اپنی کچھ حسین تصویریں رہ گئیں نگاہوں میں ورنہ کیا گزر پاتی شام زندگی اپنی فصل ...

    مزید پڑھیے

    دوستوں میں واقعی یہ بحث بھی اکثر ہوئی

    دوستوں میں واقعی یہ بحث بھی اکثر ہوئی ہار کس کے سر ہوئی ہے جیت کس کے سر ہوئی ذہن بے پیکر ہوا اور عقل بے منظر ہوئی دل تو پتھر ہو چکا تھا آنکھ بھی پتھر ہوئی لوگ کہتے ہیں کہ قدر مشترک کوئی نہیں اس خرابے میں تو سب کی زندگی دوبھر ہوئی روز و شب اخبار کی خبروں سے بہلاتا ہوں جی یہ سمجھتا ...

    مزید پڑھیے

    ایک اک لمحہ کہ ایک ایک صدی ہو جیسے

    ایک اک لمحہ کہ ایک ایک صدی ہو جیسے زندگی کھیل کوئی کھیل رہی ہو جیسے دل دھڑک اٹھا ہے تنہائی میں یوں بھی اکثر بیٹھے بیٹھے کوئی آواز سنی ہو جیسے پھر رہا ہوں میں اٹھائے ہوئے یوں بار حیات میرے شانے پہ تری زلف پڑی ہو جیسے دل کا ہر زخم کچھ اس طرح لہک اٹھا ہے رات بھر یادوں کی پروائی چلی ...

    مزید پڑھیے

    اب علاج دل بیمار سحر ہو کہ نہ ہو

    اب علاج دل بیمار سحر ہو کہ نہ ہو زندگی سایۂ گیسو میں بسر ہو کہ نہ ہو مجھ کو رکھنا ہی تھا آداب محبت کا خیال میرے شانے پہ کل اس شوخ کا سر ہو کہ نہ ہو آج ہر بات مری قول خداوندی ہے کل مری بات پہ یوں جنبش سر ہو کہ نہ ہو جانے کس موڑ پہ لے آئی مجھے عمر رواں سوچتا ہوں یہ تری راہ گزر ہو کہ نہ ...

    مزید پڑھیے

    میں کہ وقف غم دوراں نہ ہوا تھا سو ہوا

    میں کہ وقف غم دوراں نہ ہوا تھا سو ہوا چاک اب تک جو گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا پار دل کے کوئی پیکاں نہ ہوا تھا سو ہوا یوں کبھی درد کا درماں نہ ہوا تھا سو ہوا کوئی وعدہ کوئی پیماں نہ ہوا تھا سو ہوا اتنا ناداں دل ناداں نہ ہوا تھا سو ہوا ڈوبتے رہتے تھے ہر روز ہزاروں سورج پھر بھی اشکوں ...

    مزید پڑھیے

    ہر بات جو نہ ہونا تھی ایسی ہوئی کہ بس

    ہر بات جو نہ ہونا تھی ایسی ہوئی کہ بس کچھ اور چاہئے تجھے اے زندگی کہ بس جو دن نہیں گزرنا تھے وہ بھی گزر گئے دنیا ہے ہم ہیں اور ہے وہ بے بسی کہ بس جن پر نثار نقد سکوں نقد جاں کیا ان سے ملے تو ایسی ندامت ہوئی کہ بس میں جس کو دیکھتا تھا اچٹتی نگاہ سے ان کی نگاہ مجھ پہ کچھ ایسی پڑی کہ ...

    مزید پڑھیے

    چھتوں پہ آگ رہی بام و در پہ دھوپ رہی

    چھتوں پہ آگ رہی بام و در پہ دھوپ رہی سحر سے شام تلک بحر و بر پہ دھوپ رہی بہت دنوں سے جو بادل ادھر نہیں آئے درخت سوکھے رہے رہ گزر پہ دھوپ رہی کچھ ایسے وقت پہ نکلے تھے اپنے گھر سے ہم جہاں جہاں بھی گئے اپنے سر پہ دھوپ رہی غروب ہو گیا سورج مگر فضاؤں میں وہی تپش ہے کہ جیسے نگر پہ دھوپ ...

    مزید پڑھیے