Iqbal Safi Puri

اقبال صفی پوری

  • 1916 - 1999

اقبال صفی پوری کی غزل

    گزر گئی جو چمن پر وہ کوئی کیا جانے

    گزر گئی جو چمن پر وہ کوئی کیا جانے جھڑے ہوئے ہیں بہار و خزاں کے افسانے جہاں پہ چاک گریباں بھی چاک دل بن جائے گزر رہے ہیں اب ان منزلوں سے دیوانے مرے لبوں کا تبسم تو سب نے دیکھ لیا جو دل پہ بیت رہی ہے وہ کوئی کیا جانے ترے حضور جنہیں کہہ سکی نہ گویائی مرے سکوت نے دہرا دئے وہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ نگاہوں کو جب بدلتے ہیں

    وہ نگاہوں کو جب بدلتے ہیں دل سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں منزلیں دور ہیں کبھی نزدیک ہر قدم فاصلے بدلتے ہیں کون جانے کہ اک تبسم سے کتنے مفہوم غم نکلتے ہیں نہ گزر اتنی کج روی سے کہ لوگ تیرے نقش قدم پہ چلتے ہیں آگ بھی ان گھروں کو لگتی ہے جن گھروں میں چراغ جلتے ہیں جب بھی اٹھتی ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    گردشوں میں بھی ہم راستہ پا گئے

    گردشوں میں بھی ہم راستہ پا گئے جس گلی سے چلے تھے وہیں آ گئے ناگہاں اس نے جب پرسش حال کی آنکھ نم ہو گئی ہونٹ تھرا گئے ذکر جب بھی چھڑا ہے وفا کا کہیں جانے کیوں ہم کو کچھ دوست یاد آ گئے ہاتھ الجھنے لگے جیب و داماں سے کیوں اے جنوں کیا بہاروں کے دن آ گئے وہ نظر اٹھ گئی جب سر میکدہ خود ...

    مزید پڑھیے

    دامن دل ہے تار تار اپنا

    دامن دل ہے تار تار اپنا کام کر ہی گئی بہار اپنا جب سے تسکین دے گیا ہے کوئی اور بھی دل ہے بے قرار اپنا دیکھ کر بھی انہیں نہ دیکھ سکے رہ گیا شوق انتظار اپنا جستجو آ گئی سر منزل رہ گیا راہ میں غبار اپنا وہ نظر پھر گئی تو کیا ہوگا اس نظر تک ہے اعتبار اپنا اس کی ہر جنبش نظر کے ...

    مزید پڑھیے

    ہر موڑ نئی اک الجھن ہے قدموں کا سنبھلنا مشکل ہے

    ہر موڑ نئی اک الجھن ہے قدموں کا سنبھلنا مشکل ہے وہ ساتھ نہ دیں پھر دھوپ تو کیا سائے میں بھی چلنا مشکل ہے یاران سفر ہیں تیز قدم اے کشمکش دل کیا ہوگا رکتا ہوں تو بچھڑا جاتا ہوں چلتا ہوں تو چلنا مشکل ہے اب ہم پہ کھلا یہ راز چمن الجھا کے بہاروں میں دامن کانٹوں سے نکلنا آساں تھا ...

    مزید پڑھیے