اقبال پیام کی غزل

    جس کا چہرہ گلاب جیسا ہے

    جس کا چہرہ گلاب جیسا ہے اس کا ملنا تو خواب جیسا ہے بات کرتا ہوں اس لیے ان کی بات کرنا ثواب جیسا ہے میرا جینا تری جدائی میں اک مسلسل عذاب جیسا ہے نشہ اس کی نشیلی آنکھوں کا سب سے اچھی شراب جیسا ہے حال اس کا بھی آج کل یارو دل خانہ خراب جیسا ہے اے پیامؔ ان کی چاہتوں کا پیام چاہتوں ...

    مزید پڑھیے

    اسباب یہی ہے یہی سامان ہمارا

    اسباب یہی ہے یہی سامان ہمارا چڑیوں سے مہکتا رہے دالان ہمارا ہر شخص کو خوشحالی کی دیتے ہیں دعائیں ہر شخص ہی کر جاتا ہے نقصان ہمارا ہر شخص ہی کیوں اس کو مٹانے پہ تلا ہے دیواروں پہ لکھا ہوا پیمان ہمارا پیتے ہیں فقط ساتھ نبھانے کے لیے ہم ہر شام کو غم ہوتا ہے مہمان ہمارا رہنا ہے ...

    مزید پڑھیے

    اس نے دل سے نکال رکھا ہے

    اس نے دل سے نکال رکھا ہے کس مصیبت میں ڈال رکھا ہے غور سے دیکھ اس کی آنکھوں میں روشنی کا کمال رکھا ہے اس سے ہوتی نہیں ملاقاتیں اس نے وعدوں پہ ٹال رکھا ہے میرے آنگن میں کیا خوشی آئے سامنے غم کا جال رکھا ہے وہ ہمیں پوچھنے نہیں آتا ہم نے جس کو سنبھال رکھا ہے اس کی ہم اس ادا پہ ہیں ...

    مزید پڑھیے