Iqbal Naved

اقبال نوید

اقبال نوید کی غزل

    رات بھر کوئی نہ دروازہ کھلا

    رات بھر کوئی نہ دروازہ کھلا دستکیں دیتی رہی پاگل ہوا وقت بھی پہچان سے منکر رہا دھند میں لپٹا رہا یہ آئنا کوئی بھی خواہش نہ پوری ہو سکی راستے میں لٹ گیا یہ قافلا وہ پرندہ ہوں جسے ہوتے ہی شام بھول جائے اپنے گھر کا راستا ہم سفر سب اجنبی ہوتے گئے جیسے جیسے راستہ کٹتا گیا ہم ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی

    اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی مگر اپنی یہ مجبوری کہ خوش فہمی نہیں جاتی خدا جانے گریباں کس کے ہیں اور ہاتھ کس کے ہیں اندھیرے میں کسی کی شکل پہچانی نہیں جاتی مری خواہش ہے دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے آؤں بلندی کی طرف لیکن کبھی پستی نہیں جاتی خیالوں میں ہمیشہ اس غزل کو ...

    مزید پڑھیے

    زمیں مدار سے اپنے اگر نکل جائے

    زمیں مدار سے اپنے اگر نکل جائے نہ جانے کون سا منظر کدھر نکل جائے اب آفتاب سوا نیزے پر اترنا ہے گرفت شب سے ذرا یہ سحر نکل جائے ثمر گرا کے بھی آندھی کی خو نہیں بدلی یہی نہیں کہ جڑوں سے شجر نکل جائے اب اتنی زور سے ہر گھر پہ دستکیں دینا اگر جواب نہ آئے تو در نکل جائے میں چل پڑا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    یہ زمیں ہم کو ملی بہتے ہوئے پانی کے ساتھ

    یہ زمیں ہم کو ملی بہتے ہوئے پانی کے ساتھ اک سمندر پار کرنا ہے اسی کشتی کے ساتھ عمر یونہی تو نہیں کٹتی بگولوں کی طرح خاک اڑنے کے لیے مجبور ہے آندھی کے ساتھ جانے کس امید پر ہوں آبیاری میں مگن ایک پتہ بھی نہیں سوکھی ہوئی ٹہنی کے ساتھ میں ابھی تک رزق چننے میں یہاں مصروف ہوں لوٹ ...

    مزید پڑھیے

    دوستوں کے ہو بہو پیکر کا اندازہ لگا

    دوستوں کے ہو بہو پیکر کا اندازہ لگا ایک پتھر کے بدن پر کانچ کا چہرہ لگا دیکھنے والی نگاہوں میں اگر تضحیک ہے کون کہتا تھا بھرے بازار میں میلہ لگا خواہشوں کے پیڑ سے گرتے ہوئے پتے نہ چن زندگی کے صحن میں امید کا پودا لگا تیرے اندر کی خزاں مایوس کر دے گی تجھے کھڑکیوں میں پھول رکھ ...

    مزید پڑھیے