Iqbal Minhas

اقبال منہاس

اقبال منہاس کی غزل

    نگر میں رہتے تھے لیکن گھروں سے دور رہے

    نگر میں رہتے تھے لیکن گھروں سے دور رہے عجیب لوگ تھے جو دلبروں سے دور رہے دعائیں مانگتے پھرتے ہیں لوگ گلیوں میں متاع ہوش ہمارے سروں سے دور رہے یہ لوگ کیمیا گر ہیں پرکھ نہ لیں ہم کو یہ بات سوچ کے وہ بے زروں سے دور رہے متاع درد لٹاتے رہے زمانے میں ہم اہل درد تھے سوداگروں سے دور ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی غیر نہ اپنا دکھائی دیتا ہے

    نہ کوئی غیر نہ اپنا دکھائی دیتا ہے ہر آدمی مجھے تجھ سا دکھائی دیتا ہے روش روش ترے قدموں کے نقش ملتے ہیں گلی گلی ترا چہرا دکھائی دیتا ہے شب فراق کی تاریکیوں کا حال نہ پوچھ چراغ ماہ بھی اندھا دکھائی دیتا ہے عجیب رنگ بہاراں ہے اب کے گلشن میں نہ کوئی پھول نہ غنچہ دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے

    جب شاخ تمنا پہ کوئی پھول کھلا ہے

    جب شاخ تمنا پہ کوئی پھول کھلا ہے امید کے صحراؤں میں طوفان اٹھا ہے تو میری نگاہوں میں جسے ڈھونڈ رہا ہے وہ حسن مرے شعر کے پردے میں چھپا ہے تھم تھم کے چمکتے رہے پلکوں پہ ستارے رک رک کے ترے درد کا افسانہ کہا ہے اپنے ہی مقدر کا کوئی پھول نہ جاگا اک عمر بہاروں نے لہو میرا پیا ہے اس ...

    مزید پڑھیے

    صرصر چلی وہ گرم کہ سائے بھی جل گئے

    صرصر چلی وہ گرم کہ سائے بھی جل گئے صحرا میں آ کے یاروں کے حلیے بدل گئے جب راکھ ہو کے رہ گیا وہ شہر گل رخاں پھر اس طرف کو بادلوں کے دل کے دل گئے تن کر کھڑا رہا تو کوئی سامنے نہ تھا جب جھک گیا تو ہر کسی کے وار چل گئے کچھ دکھ کی روشنی تھی بڑی تیز اور کچھ اشکوں کی بارشوں سے بھی چہرے ...

    مزید پڑھیے