Iqbal Kaifi

اقبال کیفی

اقبال کیفی کی غزل

    کیف حیات تیرے سوا کچھ نہیں رہا

    کیف حیات تیرے سوا کچھ نہیں رہا تیری قسم ہے تجھ سے جدا کچھ نہیں رہا واللہ سب رتیں ہیں پریشاں ترے بغیر واللہ موسموں کا مزا کچھ نہیں رہا طوفان ساحلوں کو اڑاتے چلے گئے کیسے کہوں کہ کچھ بھی رہا کچھ نہیں رہا افسوس معبدوں میں خدا بیچتے ہیں لوگ اب معنیٔ سزا و جزا کچھ نہیں رہا ہم ...

    مزید پڑھیے

    یہی نہیں کہ نگاہوں کو اشک بار کیا

    یہی نہیں کہ نگاہوں کو اشک بار کیا ترے فراق میں دامن بھی تار تار کیا متاع عشق یہی حاصل حیات یہی خلوص نذر کیا اور دل نثار کیا یہی بس ایک خطا وجہ بے قراری تھی جو ریگ زار میں باراں کا انتظار کیا زر بیاں سے مزین نقوش حسن کیے متاع حرف کو مدحت سرائے یار کیا پلٹ کے آ گئے نالے جو ...

    مزید پڑھیے

    سائل کے لبوں پر ہے دعا اور طرح کی

    سائل کے لبوں پر ہے دعا اور طرح کی افلاک سے آتی ہے صدا اور طرح کی ہے زیست اگر جرم تو اے منصف عالم جرم اور طرح کا ہے سزا اور طرح کی اس دل میں ہے مفہوم کرم اور طرح کا اس دل میں ہے تفہیم وفا اور طرح کی پھولوں کا تبسم بھی وہ پہلا سا نہیں ہے گلشن میں بھی چلتی ہے ہوا اور طرح کی دیتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    لب گداز پہ الفاظ سخت رہتے ہیں

    لب گداز پہ الفاظ سخت رہتے ہیں زبان غیر کے لہجے کرخت رہتے ہیں کہیں کہیں تو غلاموں سے بھی رہے بد تر وہ جن کے پاؤں کی ٹھوکر میں تخت رہتے ہیں رتیں بدلتی ہیں وقت ایک سا نہیں رہتا تمام عمر نہ بیدار بخت رہتے ہیں خزاں کا دور بھی آتا ہے ایک دن کیفیؔ سدا بہار کہاں تک درخت رہتے ہیں

    مزید پڑھیے

    محبتوں نے بڑی ہیر پھیر کر دی ہے

    محبتوں نے بڑی ہیر پھیر کر دی ہے وفا غرور کے قدموں میں ڈھیر کر دی ہے کٹی ہے رات بڑے اضطراب میں اپنی ترے خیال میں ہم نے سویر کر دی ہے ہم اہل عشق تو برسوں کے مر گئے ہوتے عروس مرگ نے آنے میں دیر کر دی ہے اٹے ہوئے ہیں فقیروں کے پیرہن کیفیؔ جہاں نے بھیک میں مٹی بکھیر کر دی ہے

    مزید پڑھیے

    بے کسی پر ظلم لا محدود ہے

    بے کسی پر ظلم لا محدود ہے مطلع انصاف ابرآلود ہے وقت کی قیمت ادا کرنے کے بعد عہد کا فرعون پھر مسجود ہے ہر طرف زر کی پرستش ہے یہاں سنتے آئے تھے خدا معبود ہے چار سو ہے آتش و آہن کا کھیل اور خلا میں شعلہ و بارود ہے تابش علم و ہنر ہے بے ثمر کاوش حسن عمل بے سود ہے امن کیفیؔ ہو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سنا ہے اس نے خزاں کو بہار کرنا ہے

    سنا ہے اس نے خزاں کو بہار کرنا ہے یہ جھوٹ تو ہے مگر اعتبار کرنا ہے یہ اور بات ملاقات ہو نہ ہو لیکن قیامتوں کا ہمیں انتظار کرنا ہے محبتوں کو بھی اس نے خطا قرار دیا مگر یہ جرم ہمیں بار بار کرنا ہے ہر ایک بار یہ سوچا کہ اب کی بار اس نے نہ جانے کون سا ڈھنگ اختیار کرنا ہے تم اپنا چاند ...

    مزید پڑھیے

    ساحل کے طلب گار بھی کیا خوب رہے ہیں

    ساحل کے طلب گار بھی کیا خوب رہے ہیں کہتے تھے نہ ڈوبیں گے مگر ڈوب رہے ہیں تو لاکھ رہے اہل محبت سے گریزاں ہم لوگ ترے نام سے منسوب رہے ہیں دیکھا ہے محبت کو عبادت کی نظر سے نفرت کے عوامل ہمیں معیوب رہے ہیں لمحوں کے لئے ایک نظر ان کو تو دیکھو صدیوں کی صلیبوں پہ جو مصلوب رہے ہیں

    مزید پڑھیے

    موج بلا میں روز کوئی ڈوبتا رہے

    موج بلا میں روز کوئی ڈوبتا رہے ساحل ہر ایک بار مگر دیکھتا رہے یاروں کی کشتیاں رہیں ساحل سے بے نیاز طوفاں سے بے نیاز اگر ناخدا رہے خیرات میں کبھی نہیں مانگیں محبتیں ہر چند میرے دوست مجھے آزما رہے جن کو نہیں تھی دولت احساس تک نصیب تکریم بے نظر میں وہی دیوتا رہے میں ایسے حسن ظن ...

    مزید پڑھیے

    گہر سمجھا تھا لیکن سنگ نکلا

    گہر سمجھا تھا لیکن سنگ نکلا کسی کا ظرف کتنا تنگ نکلا جسے نسبت رہی قوس قزح سے ہواؤں کی طرح بے رنگ نکلا غزل کے رنگ میں ملبوس ہو کر رباب درد سے آہنگ نکلا کوئی بھی ڈھنگ راس آیا نہ کیفیؔ زمانہ کس قدر بے ڈھنگ نکلا

    مزید پڑھیے