Iqbal Kaifi

اقبال کیفی

اقبال کیفی کے تمام مواد

10 غزل (Ghazal)

    کیف حیات تیرے سوا کچھ نہیں رہا

    کیف حیات تیرے سوا کچھ نہیں رہا تیری قسم ہے تجھ سے جدا کچھ نہیں رہا واللہ سب رتیں ہیں پریشاں ترے بغیر واللہ موسموں کا مزا کچھ نہیں رہا طوفان ساحلوں کو اڑاتے چلے گئے کیسے کہوں کہ کچھ بھی رہا کچھ نہیں رہا افسوس معبدوں میں خدا بیچتے ہیں لوگ اب معنیٔ سزا و جزا کچھ نہیں رہا ہم ...

    مزید پڑھیے

    یہی نہیں کہ نگاہوں کو اشک بار کیا

    یہی نہیں کہ نگاہوں کو اشک بار کیا ترے فراق میں دامن بھی تار تار کیا متاع عشق یہی حاصل حیات یہی خلوص نذر کیا اور دل نثار کیا یہی بس ایک خطا وجہ بے قراری تھی جو ریگ زار میں باراں کا انتظار کیا زر بیاں سے مزین نقوش حسن کیے متاع حرف کو مدحت سرائے یار کیا پلٹ کے آ گئے نالے جو ...

    مزید پڑھیے

    سائل کے لبوں پر ہے دعا اور طرح کی

    سائل کے لبوں پر ہے دعا اور طرح کی افلاک سے آتی ہے صدا اور طرح کی ہے زیست اگر جرم تو اے منصف عالم جرم اور طرح کا ہے سزا اور طرح کی اس دل میں ہے مفہوم کرم اور طرح کا اس دل میں ہے تفہیم وفا اور طرح کی پھولوں کا تبسم بھی وہ پہلا سا نہیں ہے گلشن میں بھی چلتی ہے ہوا اور طرح کی دیتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    لب گداز پہ الفاظ سخت رہتے ہیں

    لب گداز پہ الفاظ سخت رہتے ہیں زبان غیر کے لہجے کرخت رہتے ہیں کہیں کہیں تو غلاموں سے بھی رہے بد تر وہ جن کے پاؤں کی ٹھوکر میں تخت رہتے ہیں رتیں بدلتی ہیں وقت ایک سا نہیں رہتا تمام عمر نہ بیدار بخت رہتے ہیں خزاں کا دور بھی آتا ہے ایک دن کیفیؔ سدا بہار کہاں تک درخت رہتے ہیں

    مزید پڑھیے

    محبتوں نے بڑی ہیر پھیر کر دی ہے

    محبتوں نے بڑی ہیر پھیر کر دی ہے وفا غرور کے قدموں میں ڈھیر کر دی ہے کٹی ہے رات بڑے اضطراب میں اپنی ترے خیال میں ہم نے سویر کر دی ہے ہم اہل عشق تو برسوں کے مر گئے ہوتے عروس مرگ نے آنے میں دیر کر دی ہے اٹے ہوئے ہیں فقیروں کے پیرہن کیفیؔ جہاں نے بھیک میں مٹی بکھیر کر دی ہے

    مزید پڑھیے

تمام