Indr Mohan Mehta Kaif

اندر موہن مہتا کیف

اندر موہن مہتا کیف کی غزل

    کس کو ہم سفر سمجھیں جو بھی ساتھ چلتے ہیں

    کس کو ہم سفر سمجھیں جو بھی ساتھ چلتے ہیں آشنا سے لگتے ہیں اجنبی نکلتے ہیں اے مری شریک غم کاش تو سمجھ سکتی کتنے ان بہے آنسو قہقہوں میں ڈھلتے ہیں رات کی خموشی میں جب کوئی نہیں ہوتا دل سے بیتی یادوں کے قافلے نکلتے ہیں تہ بہ تہ اندھیروں تک روشنی تو پھیلے گی ایک رات کی ضد میں سو چراغ ...

    مزید پڑھیے

    دل کی راہوں سے دبے پاؤں گزرنے والا

    دل کی راہوں سے دبے پاؤں گزرنے والا چھوڑ جائے گا کوئی زخم نہ بھرنے والا اب وہ صحرائے جنوں خاک اڑانے سے رہا اب وہ دریائے محبت نہیں بھرنے والا ضبط غم کر لیا یہ بھی تو نہ سوچا میں نے ایک نشتر سا ہے اب دل میں اترنے والا ڈوب کر پار اترنا ہے چڑھے دریا سے ایک دریا ہی تو ہے وقت گزرنے ...

    مزید پڑھیے

    پانی مٹ کر بھی رہ گیا پانی

    پانی مٹ کر بھی رہ گیا پانی ہوئے کیا بات کہہ گیا پانی کٹ گیا بوند بوند میں پتھر چوٹ پتھر کی سہہ گیا پانی خواب بھی برف کے گھروندے تھے جب کھلی آنکھ رہ گیا پانی شور کتنا کیا تھا لہروں نے ایک طوفاں میں بہہ گہا پانی زندگی نام ہے روانی کا جاتے جاتے یہ کہہ گیا پانی ہم نظاروں کو ...

    مزید پڑھیے

    مٹتی قدروں میں بھی پابند وفا ہیں ہم لوگ

    مٹتی قدروں میں بھی پابند وفا ہیں ہم لوگ کسی چلتے ہوئے جوگی کی صدا ہیں ہم لوگ منزلیں پاؤ گے ہم خاک نشینوں کے طفیل ہم نے مانا کہ نشان کف پا ہیں ہم لوگ اہل مے خانہ ہمیں دیکھ کے ہنستے ہیں تو کیا پیر مے خانہ کو معلوم ہے کیا ہیں ہم لوگ زندگی قید کی مدت ہے تو یہ بھی سچ ہے اپنے ناکردہ ...

    مزید پڑھیے

    آسمانوں سے نہ اترے گا صحیفہ کوئی

    آسمانوں سے نہ اترے گا صحیفہ کوئی اے زمیں ڈھونڈ لے اب اپنا مسیحا کوئی پھر در دل پہ کسی یاد نے دستک دی ہے پھر بہا کر مجھے لے جائے گا دریا کوئی یہ تو محفل نہ ہوئی مقتل احساس ہوا آئنہ دے کے مجھے لے گیا چہرہ کوئی کتنے ویران ہیں یادوں کے در و بام نہ پوچھ بھول کر بھی ادھر آیا نہ پرندہ ...

    مزید پڑھیے