عمران عامی کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    جتنے پانی میں کوئی ڈوب کے مر سکتا ہے

    جتنے پانی میں کوئی ڈوب کے مر سکتا ہے اتنا پانی تو مری اوک میں بھر سکتا ہے یہ تو میں روز کنارے پہ کھڑا سوچتا ہوں پیاس بڑھ سکتی ہے دریا بھی اتر سکتا ہے اک دیا اور تو کچھ کر نہیں سکتا لیکن شب کی دیوار میں دروازہ تو کر سکتا ہے حسن ترتیب سے رکھی ہوئی یادوں کی طرف دیکھنے والا کسی روز ...

    مزید پڑھیے

    میں سچ کہوں پس دیوار جھوٹ بولتے ہیں

    میں سچ کہوں پس دیوار جھوٹ بولتے ہیں مرے خلاف مرے یار جھوٹ بولتے ہیں ملی ہے جب سے انہیں بولنے کی آزادی تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں میں مر چکا ہوں مجھے کیوں یقیں نہیں آتا تو کیا یہ میرے عزا دار جھوٹ بولتے ہیں یہ شہر عشق بہت جلد اجڑنے والا ہے دکان دار و خریدار جھوٹ بولتے ...

    مزید پڑھیے

    ہمسائے میں شیطان بھی رہتا ہے خدا بھی

    ہمسائے میں شیطان بھی رہتا ہے خدا بھی جنت بھی میسر ہے جہنم کی ہوا بھی یہ شہر تو لگتا ہے کباڑی کی دکاں ہے کھوٹا بھی اسی مول میں بکتا ہے کھرا بھی اس جسم کو بھی چاٹ گئی سانس کی دیمک میں نے اسے دیکھا تھا کسی وقت ہرا بھی جیسے کبھی پہلے بھی میں گزرا ہوں یہاں سے مانوس ہے اس رہ سے مری ...

    مزید پڑھیے

    بات دل کو مرے لگی نہیں ہے

    بات دل کو مرے لگی نہیں ہے میرے بھائی یہ شاعری نہیں ہے جانتی ہے مرے چراغ کی لو کون سے گھر میں روشنی نہیں ہے وہ تعلق بھی مستقل نہیں تھا یہ محبت بھی دائمی نہیں ہے میں جو قصہ سنا چکا تو کھلا کوئی دیوار بولتی نہیں ہے دیکھنے والی آنکھ بھی تو ہو کون دریا میں جل پری نہیں ہے بزدلا چھپ ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے اک ہاتھ کیا ملا لیا ہے

    تجھ سے اک ہاتھ کیا ملا لیا ہے شہر نے واقعہ بنا لیا ہے ہم تو ہم تھے کہ اس پری رو نے آئنے کا بھی دل چرا لیا ہے ورنہ یہ سیل آب لے جاتا شہر کو آگ نے بچا لیا ہے ایسی ناؤ میں کیا سفر کرنا جس نے دریا کو دکھ سنا لیا ہے کوزہ گر نے ہماری مٹی سے کیا بنانا تھا کیا بنا لیا ہے دیکھیے پہلے کون ...

    مزید پڑھیے

تمام