کانٹوں میں ہی کچھ ظرف سماعت نظر آئے
کانٹوں میں ہی کچھ ظرف سماعت نظر آئے گلشن میں کہیں تو میری روداد سنی جائے اس کارگہ شیشہ میں آئینہ ہوں میں بھی چہرہ نہیں کوئی تو کوئی سنگ ہی آئے گلگشت کا اب ذوق نہ کچھ قدر بہاراں اک عمر سے ہوں زخموں کا گل زار سجائے منزل کا ہے امکاں نہ کوئی ختم سفر کا اس آبلہ پائی کو کوئی نام دیا ...