اپنے احسانوں کا نیلا سائباں رہنے دیا
اپنے احسانوں کا نیلا سائباں رہنے دیا چھین لی چھت اور سر پر آسماں رہنے دیا آج اس کی بے زبانی نے مجھے سمجھا دیا کس لئے فطرت نے گل کو بے زباں رہنے دیا زندگی تو کیا اثاثہ تک نہیں باقی بچا قاتلوں نے اب کے بس خالی مکاں رہنے دیا خوف رسوائی سے میں نے خط جلا ڈالا مگر جانے کیوں اس چاند سے ...