Ibraheem Hosh

ابراہیم ہوش

ابراہیم ہوش کی غزل

    دریا میں ہے سراب عجب ابتلا میں ہوں

    دریا میں ہے سراب عجب ابتلا میں ہوں میں بھی حسین ہی کی طرح کربلا میں ہوں ٹکتے نہیں کہیں بھی قدم آرزوؤں کے پھینکا ہے جب سے تیری زمیں نے خلا میں ہوں آواز کب سے دیتا تھا حرماں نصیب دل اب آئی ہے تو غرق نشاط بلا میں ہوں کیا فرض ہے کہ عیسیٰ و مریم دکھائی دے مصلوب درد چیخے کہ میں ابتلا ...

    مزید پڑھیے

    میں وہ نہیں کہ زمانے سے بے عمل جاؤں

    میں وہ نہیں کہ زمانے سے بے عمل جاؤں مزاج پوچھ کے دار و رسن کا ٹل جاؤں وہ اور ہوں گے جو ہیں آج قید بے سمتی وہی ہے سمت میں جس سمت کو نکل جاؤں فریب کھا کے جنوں عقل کے کھلونوں سے خدا وہ وقت نہ لائے کہ میں بہل جاؤں مرا وجود ہے مومی کہیں نہ ہو ایسا کسی کی یاد کی گرمی سے میں پگھل جاؤں جو ...

    مزید پڑھیے

    دیر و حرم میں دشت و بیابان و باغ میں

    دیر و حرم میں دشت و بیابان و باغ میں ڈھونڈو نہ مجھ کو میں ہوں خود اپنے سراغ میں ہاں اے اسیرو خیر سے ہو کس سراغ میں کھلتے ہیں اب تو پھول ہوا بست باغ میں اس برف زار میں بھی جلاتی ہی جاتی ہے وہ اک شبیہ جو ہے نہاں دل کے داغ میں رہتا ہے اب زمین پہ وہ آسماں پسند ہاں وہ خجل تھا جس سے خدا ...

    مزید پڑھیے