کھڑکی کھولو کچھ تو یہاں بھی تازہ نرم ہوا آئے
کھڑکی کھولو کچھ تو یہاں بھی تازہ نرم ہوا آئے منظر صحن چمن کا ابھرے بوئے درد ربا آئے بے جاں فن میں جان سی آئے زخم تمنا تازہ ہو یاد میں رنگ حنا کا لہکے رقص میں باد صبا آئے ماہ گزیدہ رات ہے ساکت جیسے کوئی آئینہ اوس کے سبزے پر گرنے کی سناٹے میں صدا آئے فضل خزاں کے سوکھے پتے ہانپ ...