کب ٹھہرے گا درد اے دل!
شباہت کی آنکھوں میں نیند کا دور دور تک کہیں پتہ نہ تھا۔ اور پھوپھی بچوں میں محو تھیں۔ ۔۔۔ چھا جوں برستا پانی اور جنگل کی اندھیری رات۔۔۔ ’’پھوپھی ۔ اب سوجائیے۔ سب لوگ سو چکے‘‘۔ ’’ارے بیٹی۔ میں بخت ماری تو کب کی سو چکی ہوتی، پر بچے سونے دیں تب نا‘‘۔ ’’پھوپھی‘‘۔ شباہت آہستہ ...