Husain Taj Rizvi

حسین تاج رضوی

حسین تاج رضوی کی غزل

    ڈھلی جو شام نظر سے اتر گیا سورج

    ڈھلی جو شام نظر سے اتر گیا سورج ہوا کسی نے اڑا دی کہ مر گیا سورج سحر ہوئی نہیں کب سے گزشتہ شام کے بعد غروب ہو کہ نہ جانے کدھر گیا سورج سجی ہوئی ہے ستاروں کی انجمن اے دل کہ پارہ پارہ فلک پر بکھر گیا سورج لگا کہ کھینچ لی اس نے زمین پیروں سے لگا کہ تلووں کو چھو کر گزر گیا سورج یہ ...

    مزید پڑھیے

    جب جھوٹ راویوں کے قلم بولنے لگے

    جب جھوٹ راویوں کے قلم بولنے لگے ہر خود سری کو جاہ و حشم بولنے لگے اک اذن لب کشائی نے بے باک کر دیا دیکھو کس اعتماد سے ہم بولنے لگے کوئی کسی سے پوچھ رہا تھا ترا سراغ اٹھ اٹھ کے میرے نقش قدم بولنے لگے سمجھے تھے آستین چھپا لے گی سب گناہ لیکن غضب ہوا کہ صنم بولنے لگے حق گوئی کے محاذ ...

    مزید پڑھیے

    سب مطمئن تھے صبح کا اخبار دیکھ کر

    سب مطمئن تھے صبح کا اخبار دیکھ کر خائف تھے ہم نوشتۂ دیوار دیکھ کر منصف گواہ حد ہے کہ مظلوم بک گئے قیمت لگی جو ظرف خریدار دیکھ کر میں بوریا نشین غریب الوطن فقیر حیراں تھا شان و شوکت دربار دیکھ کر ناواقف رسوم حضوری تھا کہ گیا سب دم بخود تھے جرأت اظہار دیکھ کر ایسا نہیں کہ سب تھے ...

    مزید پڑھیے

    ماحول سے جیسے کہ گھٹن ہونے لگی ہے

    ماحول سے جیسے کہ گھٹن ہونے لگی ہے بے کیفیتی عضو بدن ہونے لگی ہے کچھ فرق سا محسوس نہیں شام و سحر میں اٹھنے کے تصور سے تھکن ہونے لگی ہے مفقود ہوئی خنکیٔ احساس نظر سے سبزوں کو بھی دیکھے سے جلن ہونے لگی ہے کچھ اس سے گلہ بھی ہے کچھ اپنی بھی خطائیں یوں اس کے تصور سے چبھن ہونے لگی ...

    مزید پڑھیے

    میں اس کی آنکھ میں وہ میرے دل کی سیر میں تھا

    میں اس کی آنکھ میں وہ میرے دل کی سیر میں تھا وہ اپنے شہر میں اور میں دیار غیر میں تھا ہم اپنے گھر سے بہت دور جا کے لوٹ آئے کسی کی آنکھ کا کانٹا ہمارے پیر میں تھا ملا تو اشک ندامت کی تہ میں اس کا سراغ کسی کے دل میں نہ کعبے میں تھا نہ دیر میں تھا میں جانتا ہوں لیا جا رہا تھا میرا ...

    مزید پڑھیے

    پھر ترا شہر تری راہ گزر ہو کہ نہ ہو

    پھر ترا شہر تری راہ گزر ہو کہ نہ ہو اور ہو بھی تو مجھے شوق سفر ہو کہ نہ ہو ہو نہ ہو پھر سے رگ و پے میں شراروں کا گماں پھر کبھی دوش پہ میرے ترا سر ہو کہ نہ ہو مانگ لوں تیرے حوالے سے تو شاید مل جائے کیا خبر صرف دعاؤں میں اثر ہو کہ نہ ہو ناامیدی کے یہ شب زاد ڈراتے ہیں مجھے تیرے آنے سے ...

    مزید پڑھیے

    ثبوت جرم نہ ملنے کا پھر بہانہ کیا

    ثبوت جرم نہ ملنے کا پھر بہانہ کیا کہ عدلیہ نے وہی فیصلہ پرانا کیا ہوا کے اپنے مسائل ہیں اور چراغ کے بھی نہ وہ غلط نہ عمل اس نے مجرمانہ کیا یہ تم نے جنگ کا عنوان ہی بدل ڈالا علم سجایا نہ لشکر کوئی روانہ کیا ہری بھری تھیں جو شاخیں وہی پھلیں پھولیں اسی شجر کو پرندوں نے آشیانہ ...

    مزید پڑھیے

    ہے میرے گرد یقیناً کہیں حصار سا کچھ

    ہے میرے گرد یقیناً کہیں حصار سا کچھ اور اس کو بھی ہے دعاؤں پہ اعتبار سا کچھ کہیں تو گوشۂ دل میں امید باقی ہے کہیں ہے اس کی نظر میں بھی انتظار سا کچھ کہا جب اس نے کے آنکھوں پہ اعتبار نہ کر تو میں نے مانگ لیا دل پہ اختیار سا کچھ یہ سارا کھیل فقط گردشوں کا ہے آہنگ فضول ڈھونڈ رہے ہو ...

    مزید پڑھیے

    اس حال میں جیتے ہو تو مر کیوں نہیں جاتے

    اس حال میں جیتے ہو تو مر کیوں نہیں جاتے یوں ٹوٹ چکے ہو تو بکھر کیوں نہیں جاتے کیسے ہیں یہ ارمان یہ کاوش یہ تگ و دو منزل نہیں معلوم تو گھر کیوں نہیں جاتے اشکوں کی طرح کیوں مری پلکوں پہ رکے ہو خنجر کی طرح دل میں اتر کیوں نہیں جاتے مانا کہ یہ سب زخم جگر تم نے دیئے ہیں مرہم سے کسی اور ...

    مزید پڑھیے

    الجھنیں اتنی تھیں منظر اور پس منظر کے بیچ

    الجھنیں اتنی تھیں منظر اور پس منظر کے بیچ رہ گئی ساری مسافت میل کے پتھر کے بیچ رخ سے یہ پردہ ہٹا بے ہوش کر مجھ کو طبیب گفتگو جتنی بھی ہو پھر زخم اور نشتر کے بیچ اس کو کیا معلوم احوال دل شیشہ گراں ورنہ آ جاتا کبھی تو ہاتھ اور پتھر کے بیچ شوق سجدہ بندگی وارفتگی اور بے خودی معتبر ...

    مزید پڑھیے