Hatim Ali Mehr

حاتم علی مہر

  • 1815 - 1879

مرزا غالب کے ہمعصر اور دوست،ہائی کورٹ کے وکیل اور آنریری مجسٹریٹ

Prominent Contemporary poet and a friend of Mirza Ghalib. He was also a High Court lawyer who also served as Honorary Magistrate at Agra

حاتم علی مہر کی غزل

    آفتاب اب نہیں نکلنے کا

    آفتاب اب نہیں نکلنے کا دور آیا شراب ڈھلنے کا سانپ کہتے ہیں زلف کو شاعر کام کرتے ہیں منہ کچلنے کا لاکھ ہم چکنی چپڑی بات کریں ان کا دل اب نہیں پھسلنے کا صفت لب میں شعر کہتے ہیں اب ارادہ ہے لعل اگلنے کا کوٹتے ہیں جو اپنا ہم سینہ ہے عوض چھاتیاں مسلنے کا کیوں نہ ہر طرز میں ہو بات ...

    مزید پڑھیے

    عالم حیرت کا دیکھو یہ تماشا ایک اور

    عالم حیرت کا دیکھو یہ تماشا ایک اور یار نے آئینے میں اپنا سا دیکھا ایک اور مرنے والوں میں رہا جاتا ہے جیتا ایک اور نیم بسمل ہوں میں قاتل ہاتھ پورا ایک اور رفتہ رفتہ دل کو دل سے راہ ہو جائے کہیں ان سے ملنے کا رہے پوشیدہ رستہ ایک اور ایک تو مسی کا نقشہ جم رہا ہے شام سے پان کی لالی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی لے کر خبر نہیں آتا

    کوئی لے کر خبر نہیں آتا جو گیا نامہ بر نہیں آتا چاند کس جا نظر نہیں آتا یار کیوں میرے گھر نہیں آتا دم محبت کا بھر نہیں آتا راز افشا تو کر نہیں آتا عشق کیا جانے زاہد بے مغز ڈھنگ یہ عمر بھر نہیں آتا پنڈتو پترے میں دیکھو تو کیوں مرا نامہ بر نہیں آتا لالہ ہر سال رنگ لاتا ہے رنگ داغ ...

    مزید پڑھیے

    غیر ہنستے ہیں فقط اس لئے ٹل جاتا ہوں

    غیر ہنستے ہیں فقط اس لئے ٹل جاتا ہوں میں بیابانوں میں رونے کو نکل جاتا ہوں جوش وحشت کا ہوا موسم گل آ پہنچا کچھ دنوں ہوش میں رہتا ہوں سنبھل جاتا ہوں اپنی رخصت ہے بتوں سے بھی اب انشا اللہ دیر سے سوئے حرم آج ہی کل جاتا ہوں کوچۂ قاتل بے رحم جسے کہتے ہیں میں وہاں دوڑ کے مشتاق اجل ...

    مزید پڑھیے

    سر جھکاتا نہیں کبھی شیشہ

    سر جھکاتا نہیں کبھی شیشہ ہم سے کرتا ہے سرکشی شیشہ کرہ‌ نار ہے مرا سینہ شیشۂ دل ہے آتشی شیشہ دل میں رکھا تھا اس کو دل بھی گیا اڑ گئی لے کے اک پری شیشہ دختر رز پہ زور عالم ہے اس پری سے ہوا پری شیشہ خون روتا ہے قہقہے کے ساتھ خوب ہنستا ہے یہ ہنسی شیشہ زخم دل کا جو پھٹ گیا ...

    مزید پڑھیے

    پوشاک سیہ میں رخ جاناں نظر آیا

    پوشاک سیہ میں رخ جاناں نظر آیا شب کو ہمیں خورشید درخشاں نظر آیا دیکھا نہ کہیں کفر نہ ایماں نظر آیا ہندو کوئی پایا نہ مسلماں نظر آیا ملبوس سیہ میں رخ جاناں نظر آیا ظلمات میں یاں چشمۂ حیواں نظر آیا بالوں میں چھپا چہرۂ جاناں نظر آیا پردہ میں یہاں کفر کے ایماں نظر آیا پھر جوش ...

    مزید پڑھیے

    پوچھے گا جو وہ رشک قمر حال ہمارا

    پوچھے گا جو وہ رشک قمر حال ہمارا اے مہرؔ چمک جائے گا اقبال ہمارا سودے میں تری زلف کے لکھتے ہیں جو اشعار ہوتا ہے سیہ نامۂ اعمال ہمارا ابرو کا اشارہ کیا تم نے تو ہوئی عید اے جان یہی ہے مہ شوال ہمارا ہر بار دکھاتا ہے جنوں خانۂ زنجیر اس گھر میں گزارا ہوا ہر سال ہمارا آتے ہی وہ کہتے ...

    مزید پڑھیے

    دوپہر رات آ چکی حیلہ بہانہ ہو چکا

    دوپہر رات آ چکی حیلہ بہانہ ہو چکا اور مستی مل چکے گیسو میں شانہ ہو چکا ناوک مژگاں کا اپنا دل نشانہ ہو چکا مر چکے ہم موت آنے کا بہانہ ہو چکا عہد پیری ہے جوانی کا زمانہ ہو چکا ختم اب مضمون شعر عاشقانہ ہو چکا اب خزاں ہے موسم گل کا زمانہ ہو چکا ہو چکی گلبانگ بلبل کا ترانہ ہو چکا شیر ...

    مزید پڑھیے

    اس دور میں ہر اک تہ چرخ کہن لٹا

    اس دور میں ہر اک تہ چرخ کہن لٹا اوروں کا زر لٹا مرا نقد سخن لٹا خلوت نشیں ہو تو دل عاشق میں کر جگہ یوں دولت جمال نہ اے سیم تن لٹا بلبل کو کیسی کیسی ہوئیں آفتیں نصیب گلچیں کے دست ظلم سے کیا کیا چمن لٹا فریاد تک خدا سے نہ کی اے صنم تری میں بے زباں ترے یہاں اے بے دہن لٹا نباش کی ...

    مزید پڑھیے

    کرتے ہیں شوق دید میں باتیں ہوا سے ہم

    کرتے ہیں شوق دید میں باتیں ہوا سے ہم جاتے ہیں کوئے یار میں پہلے صبا سے ہم پیچھے کہیں رہے نہیں آہ رسا سے ہم جاتے ہیں کوئے یار میں پہلے صبا سے ہم ایذا کی اپنی فکر کریں گے دوا سے ہم ڈھونڈیں گے کوئی موت کا نسخہ شفا سے ہم زاہد برا نہ مانیں گے اس بد دعا سے ہم ہوں بت پرست چاہتے ہیں یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5