Hasrat Deobandi

حسرت دیوبندی

حسرت دیوبندی کی غزل

    حرف انکار کہ اقرار وفا تھا کیا تھا

    حرف انکار کہ اقرار وفا تھا کیا تھا خط میں اک جملۂ مبہم سا لکھا تھا کیا تھا اس کا چہرہ تھا قمر تھا کہ تصور میرا کل منڈیری پہ کوئی جلوہ نما تھا کیا تھا یک بیک ہو گیا اوجھل وہ نظر کے آگے دھند کا ایک بگولہ سا اٹھا تھا کیا تھا مسکراتا تھا مگر آنکھ بھی نم تھی اس کی اس کے سینے میں کوئی ...

    مزید پڑھیے