حرف انکار کہ اقرار وفا تھا کیا تھا
حرف انکار کہ اقرار وفا تھا کیا تھا خط میں اک جملۂ مبہم سا لکھا تھا کیا تھا اس کا چہرہ تھا قمر تھا کہ تصور میرا کل منڈیری پہ کوئی جلوہ نما تھا کیا تھا یک بیک ہو گیا اوجھل وہ نظر کے آگے دھند کا ایک بگولہ سا اٹھا تھا کیا تھا مسکراتا تھا مگر آنکھ بھی نم تھی اس کی اس کے سینے میں کوئی ...