Haseeb Rehbar

حسیب رہبر

حسیب رہبر کی غزل

    نقش کہن سب دل کے مٹاؤ

    نقش کہن سب دل کے مٹاؤ پھر کوئی تصویر بناؤ بستی بستی خون خرابہ عقل کے مارو ہوش میں آؤ پتھر بن کر جینا کیا پھولوں کی ٹہنی بن جاؤ مصنوعی کردار کے لوگو سچائی کے روپ دکھاؤ رات اندھیری سر پر طوفاں سوچ سمجھ کر قدم بڑھاؤ اپنوں کو تم چھوڑ کے رہبرؔ کہاں چلے یہ راز بتاؤ

    مزید پڑھیے

    جو بات حقیقت ہو بے خوف و خطر کہیے

    جو بات حقیقت ہو بے خوف و خطر کہیے میں اس کا نہیں قائل شبنم کو گہر کہیے لفظوں کی حرارت سے اجسام پگھل جائیں سنجیدہ ذرا ہو کر اشعار اگر کہیے اپنوں نے پلائے ہیں زہراب کے گھونٹ اکثر ہونٹوں پہ جو خشکی ہے تلخی کا اثر کہیے بازار تصنع کے جلووں کی نمائش کو ٹوٹے ہوئے شیشوں کا ادنیٰ سا ...

    مزید پڑھیے

    کسے ہم اپنا کہیں کوئی غم گسار نہیں

    کسے ہم اپنا کہیں کوئی غم گسار نہیں ہمیں جب اپنے پرائے پہ اعتبار نہیں ہم اپنے دور کی سچائیوں کو لکھتے ہیں قلم ہمارا کسی کا تو مستعار نہیں جو بے وفا تھے وہی لوگ پا گئے اعزاز مری وفاؤں کا اب تک کہیں شمار نہیں ہمارے سر پہ برس جائیں گے کہاں پتھر تنک مزاجیٔ موسم کا اعتبار ...

    مزید پڑھیے