Hasan Nasir

حسن ناصر

حسن ناصر کی غزل

    کھلے دلوں سے ملے فاصلہ بھی رکھتے رہے

    کھلے دلوں سے ملے فاصلہ بھی رکھتے رہے تمام عمر عجب لوگ مجھ سے الجھے رہے حنوط تتلیاں شو کیس میں نظر آئیں شریر بچے گھروں میں بھی سہمے سہمے رہے اب آئنہ بھی مزاجوں کی بات کرتا ہے بکھر گئے ہیں وہ چہرے جو عکس بنتے رہے میں آنے والے دنوں کی زبان جانتا تھا اسی لیے مری غزلوں میں پھول ...

    مزید پڑھیے

    ڈائری میں لکھ کے میرے تذکرے رکھ چھوڑنا

    ڈائری میں لکھ کے میرے تذکرے رکھ چھوڑنا پھر کبھی ان پر لگا کر حاشیے رکھ چھوڑنا یاد کی البم سجا کر گوشۂ دل میں کہیں کام آئیں گے وفا کے سلسلے رکھ چھوڑنا یہ بھی کیا پہلے دکھا کر منزلوں کے راستے پھر دلوں کے درمیاں کچھ فاصلے رکھ چھوڑنا کیا خبر کب لوٹ آئیں اجنبی دیسوں سے وہ پیڑ پر ...

    مزید پڑھیے

    منظر میں اگر کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا

    منظر میں اگر کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا کوئی بھی ترے حق میں صفائی نہیں دے گا وہ چاند جو اترا ہے کسی اور کے گھر میں مجھ کو تو اندھیروں سے رہائی نہیں دے گا خود اپنی زبانوں سے لہو چاٹنے والو ظالم تو ستم کر کے دہائی نہیں دے گا سہمی ہے سماعت کہ کوئی لفظ ہی گونجے اک شور کہ پھر کچھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    الجھی ہوئی سوچوں کی گرہیں کھولتے رہنا

    الجھی ہوئی سوچوں کی گرہیں کھولتے رہنا اچھا ہے مگر ان میں لہو گھولتے رہنا دن بھر کسی منظر کے تعاقب میں بھٹکنا اور شام کو لفظوں کے نگیں رولتے رہنا میں لمحۂ محفوظ نہیں رک نہ سکوں گا اڑنا ہے مرے سنگ تو پر تولتے رہنا خاموش بھی رہنے سے جنازے نہیں رکتے جینے کے لئے ہم نفسو بولتے ...

    مزید پڑھیے