شعاع زر نہ ملی رنگ شاعرانہ ملا
شعاع زر نہ ملی رنگ شاعرانہ ملا متاع نور سے کیا مجھ کو منصفانہ ملا میں کس سے پوچھوں کہ اس سیل خاک سے باہر کسے نکلنا نہ تھا کس کو راستہ نہ ملا کہیں دکھائی نہ دی انجم دعا کی چمک گھنے اندھیرے میں اک ہاتھ بھی اٹھا نہ ملا بھٹک رہا ہوں میں اس دشت سنگ میں کب سے ابھی تلک تو در آئینہ کھلا ...