حسن عزیز کی غزل

    شعاع زر نہ ملی رنگ شاعرانہ ملا

    شعاع زر نہ ملی رنگ شاعرانہ ملا متاع نور سے کیا مجھ کو منصفانہ ملا میں کس سے پوچھوں کہ اس سیل خاک سے باہر کسے نکلنا نہ تھا کس کو راستہ نہ ملا کہیں دکھائی نہ دی انجم دعا کی چمک گھنے اندھیرے میں اک ہاتھ بھی اٹھا نہ ملا بھٹک رہا ہوں میں اس دشت سنگ میں کب سے ابھی تلک تو در آئینہ کھلا ...

    مزید پڑھیے

    اک قصۂ طویل ہے افسانہ دشت کا

    اک قصۂ طویل ہے افسانہ دشت کا آخر کہیں تو ختم ہو ویرانہ دشت کا مجھ کو بھی غرق بحر تماشا میں کر دیا اب حد سے بڑھتا جاتا ہے دیوانہ دشت کا تعویذ آب کے سوا چارہ نہیں کوئی آسیب تشنگی سے ہے یارانہ دشت کا تو نے شکست کھائی محاذ قیام پر اب سکۂ سفر میں دے ہرجانہ دشت کا ہوتا نہیں جو خالی ...

    مزید پڑھیے

    خود پر کوئی طوفان گزر جانے کے ڈر سے

    خود پر کوئی طوفان گزر جانے کے ڈر سے میں بند ہوں کمرے میں بکھر جانے کے ڈر سے یہ لوگ مجھے خون کا تاجر نہ سمجھ لیں میں تیغ لیے پھرتا ہوں سر جانے کے ڈر سے ہر سائے پہ آہٹ پہ نظر رکھتا ہوں شب بھر بستر پہ نہیں جاتا ہوں ڈر جانے کے ڈر سے میں ٹوٹنے دیتا نہیں رنگوں کا تسلسل زخموں کو ہرا کرتا ...

    مزید پڑھیے

    جو نقش‌ برگ کرم ڈال ڈال ہے اس کا

    جو نقش‌ برگ کرم ڈال ڈال ہے اس کا تو دشت آگ اگلتا جلال ہے اس کا دیار دیدہ و دل میں میں سوچتا ہوں اسے کہ اس سے آگے تصور محال ہے اس کا ادھوری بات ہے ذکر مقیم شہر جنوب ہر اک مسافر راہ شمال ہے اس کا بدن کے دشت میں اس کی ہی گونج ہے ہر سو جواب اس کے ہیں ہر اک سوال ہے اس کا اسی کا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    دیکھوں وہ کرتی ہے اب کے علم آرائی کہ میں

    دیکھوں وہ کرتی ہے اب کے علم آرائی کہ میں ہارتا کون ہے اس جنگ میں تنہائی کہ میں بھول بیٹھا ہوں کہ افلاک بھی کچھ ہوتے ہیں اپنی وسعت میں ملی مجھ کو وہ گہرائی کہ میں آج تک اپنی رہائی کی دعا کرتا ہوں اب کے زنجیر ہواؤں نے وہ پہنائی کہ میں خود کو پانے لگا تنہائی کی تاریکی میں اس قدر ...

    مزید پڑھیے

    کماں اٹھاؤ کہ ہیں سامنے نشانے بہت

    کماں اٹھاؤ کہ ہیں سامنے نشانے بہت ابھی تو خالی پڑے ہیں لہو کے خانے بہت وہ دھوپ تھی کہ ہوئی جا رہی تھی جسم کے پار اگرچہ ہم نے گھنے سائے سر پہ تانے بہت ابھی کچھ اور کا احساس پھر بھی زندہ ہے نواح جسم کے اسرار ہم نے جانے بہت زیادہ کچھ بھی نہیں ایک مشت خاک سے میں ذرا سی چیز کو پھیلا ...

    مزید پڑھیے

    عجیب حال ہے صحرا نشیں ہیں گھر والے

    عجیب حال ہے صحرا نشیں ہیں گھر والے گھروں میں بیٹھ گئے ہیں ادھر ادھر والے نواح جسم نہیں گرچہ ریگزار سے کم یہاں بھی خطے کئی ہیں ہرے شجر والے اگرچہ شور بہت ہے در دعا پہ مگر زبانیں بند کیے بیٹھے ہیں اثر والے ہے راہ جاں یوں ہی سنسان ایک مدت سے نہ گرد اڑی نہ دکھائی دیے سفر والے بغیر ...

    مزید پڑھیے