Harbans Singh Tasavvur

ہربنس سنگھ تصور

  • 1938

ہربنس سنگھ تصور کی غزل

    منظر دے بینائی دے

    منظر دے بینائی دے کاف اور نون دکھائی دے سب ہیں چپ اور اک اک لفظ دیواروں کو سنائی دے تو آئے تو مجھ کو بھی عید کا چاند دکھائی دے خالی ہاتھ چلوں میں کیوں مجھ کو کسی کی آئی دے میں دکتور تصورؔ ہوں مجھے حروف اڑھائی دے

    مزید پڑھیے

    خامشی سے سوال میرا تھا

    خامشی سے سوال میرا تھا مجھ سے پہلے زوال میرا تھا وقت کا دھیان آیا تھا اس کو موسموں کا خیال میرا تھا معنی در معنی اس کی تھی پرواز لفظ در لفظ جال میرا تھا گھر کے باہر تھی کار دفتر کی گھر کے اندر کا حال میرا تھا اے تصورؔ نہ یاد آیا کبھی شعر جو حسب حال میرا تھا

    مزید پڑھیے

    تیرے حسن کی خیر بنا دے اک دن کا سلطان مجھے

    تیرے حسن کی خیر بنا دے اک دن کا سلطان مجھے آنکھوں کو بس دیکھنے دے اور ہونٹوں سے پہچان مجھے وصل میں اس کے مر جانے کی حسرت میرے دل میں ہے اور بچھڑ کر جینے کا بھی باقی ہے ارمان مجھے خون رگوں میں رک جائے گا لیکن سانس نہ اکھڑے گی کس کو بھول کے خوش بیٹھا ہوں جب آئے گا دھیان مجھے میں ...

    مزید پڑھیے

    دشت میں مثل صدا کے تھے

    دشت میں مثل صدا کے تھے کیا کیا نقش وفا کے تھے توڑ گئے جو کعبۂ دل بندے خاص خدا کے تھے سال مہینے دن اور رات جھونکے چار ہوا کے تھے مجھ بے گھر کے پاس رہے جتنے سیل بلا کے تھے میں بھی تصورؔ ان میں تھا جن کے تیر خطا کے تھے

    مزید پڑھیے

    قدم قدم ہے اندھا موڑ

    قدم قدم ہے اندھا موڑ دیکھ کے اپنی آنکھیں پھوڑ کبھی تو آنکھ کی پیاس بجھا کبھی تو دل کا پتھر توڑ ہمت ہے تو چوراہے میں اپنی چپ کا بھانڈا پھوڑ دل کی تمنا دل میں رکھ بند گلی کا رستہ چھوڑ تو بھی تصورؔ خواب وہ دیکھ آنکھ سے جو لے نیند نچوڑ

    مزید پڑھیے