منظر دے بینائی دے
منظر دے بینائی دے کاف اور نون دکھائی دے سب ہیں چپ اور اک اک لفظ دیواروں کو سنائی دے تو آئے تو مجھ کو بھی عید کا چاند دکھائی دے خالی ہاتھ چلوں میں کیوں مجھ کو کسی کی آئی دے میں دکتور تصورؔ ہوں مجھے حروف اڑھائی دے
منظر دے بینائی دے کاف اور نون دکھائی دے سب ہیں چپ اور اک اک لفظ دیواروں کو سنائی دے تو آئے تو مجھ کو بھی عید کا چاند دکھائی دے خالی ہاتھ چلوں میں کیوں مجھ کو کسی کی آئی دے میں دکتور تصورؔ ہوں مجھے حروف اڑھائی دے
خامشی سے سوال میرا تھا مجھ سے پہلے زوال میرا تھا وقت کا دھیان آیا تھا اس کو موسموں کا خیال میرا تھا معنی در معنی اس کی تھی پرواز لفظ در لفظ جال میرا تھا گھر کے باہر تھی کار دفتر کی گھر کے اندر کا حال میرا تھا اے تصورؔ نہ یاد آیا کبھی شعر جو حسب حال میرا تھا
تیرے حسن کی خیر بنا دے اک دن کا سلطان مجھے آنکھوں کو بس دیکھنے دے اور ہونٹوں سے پہچان مجھے وصل میں اس کے مر جانے کی حسرت میرے دل میں ہے اور بچھڑ کر جینے کا بھی باقی ہے ارمان مجھے خون رگوں میں رک جائے گا لیکن سانس نہ اکھڑے گی کس کو بھول کے خوش بیٹھا ہوں جب آئے گا دھیان مجھے میں ...
دشت میں مثل صدا کے تھے کیا کیا نقش وفا کے تھے توڑ گئے جو کعبۂ دل بندے خاص خدا کے تھے سال مہینے دن اور رات جھونکے چار ہوا کے تھے مجھ بے گھر کے پاس رہے جتنے سیل بلا کے تھے میں بھی تصورؔ ان میں تھا جن کے تیر خطا کے تھے
قدم قدم ہے اندھا موڑ دیکھ کے اپنی آنکھیں پھوڑ کبھی تو آنکھ کی پیاس بجھا کبھی تو دل کا پتھر توڑ ہمت ہے تو چوراہے میں اپنی چپ کا بھانڈا پھوڑ دل کی تمنا دل میں رکھ بند گلی کا رستہ چھوڑ تو بھی تصورؔ خواب وہ دیکھ آنکھ سے جو لے نیند نچوڑ