تمام عالم سے موڑ کر منہ میں اپنے اندر سما گیا ہوں
تمام عالم سے موڑ کر منہ میں اپنے اندر سما گیا ہوں مجھے نہ آواز دے زمانہ میں اپنی آواز سن رہا ہوں تضاد ہستی کا فلسفہ ہوں عروج و پستی کا آئنا ہوں اٹھا ہوا اک غرور سر ہوں مٹا ہوا ایک نقش پا ہوں ہو کیا تعین مری حدوں کا شمار کیا میری وسعتوں کا ہزاروں عالم بسے ہیں مجھ میں میں بے حد و ...