Haneef Kaifi

حنیف کیفی

حنیف کیفی کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    تمام عالم سے موڑ کر منہ میں اپنے اندر سما گیا ہوں

    تمام عالم سے موڑ کر منہ میں اپنے اندر سما گیا ہوں مجھے نہ آواز دے زمانہ میں اپنی آواز سن رہا ہوں تضاد ہستی کا فلسفہ ہوں عروج و پستی کا آئنا ہوں اٹھا ہوا اک غرور سر ہوں مٹا ہوا ایک نقش پا ہوں ہو کیا تعین مری حدوں کا شمار کیا میری وسعتوں کا ہزاروں عالم بسے ہیں مجھ میں میں بے حد و ...

    مزید پڑھیے

    تھے مرے زخموں کے آئینے تمام

    تھے مرے زخموں کے آئینے تمام داغ داغ آئے نظر سینے تمام سب نظر آتے ہیں چہرے گرد گرد کیا ہوئے بے آب آئینے تمام ایک منزل اور ہے اک جست اور آدمی طے کر چکا زینے تمام موت لے کر ایک آندھی آئی تھی کھو دیے انسان بستی نے تمام تازگی چہرے پہ اب تو لائیے پی لیا ہے زہر کیفیؔ نے تمام

    مزید پڑھیے

    آرزوئیں کمال آمادہ

    آرزوئیں کمال آمادہ زندگانی زوال آمادہ زندگی تشنۂ مجال جواب لمحہ لمحہ سوال آمادہ زخم کھا کر بپھر رہی ہے انا عاجزی ہے جلال آمادہ کیسے ہموار ہو نباہ کی راہ دل مخالف خیال آمادہ پھر کوئی نشتر آزما ہو جائے زخم ہیں اندمال آمادہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیے رہ گزر ہے جدال آمادہ ہر ...

    مزید پڑھیے

    ہے راہ رو کے ہوئے حادثات کی دیوار

    ہے راہ رو کے ہوئے حادثات کی دیوار گرائے کون یہ گرد حیات کی دیوار سحر ہمارے مقدر سے دور ہوتی گئی بلند ہوتی گئی روز رات کی دیوار مٹے جو یہ حد فاصل تو آپ تک پہنچیں ہمارے بیچ میں حائل ہے ذات کی دیوار انا انا کے مقابل ہے راہ کیسے کھلے تعلقات میں حائل ہے بات کی دیوار نہ جانے کون سے ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک کمال کو دیکھا جو ہم نے رو بہ زوال

    ہر اک کمال کو دیکھا جو ہم نے رو بہ زوال سسک کے رہ گئی سینے میں آرزوئے کمال ہم اپنی ڈوبتی قدروں کے ساتھ ڈوب گئے ملے گی اب تو کتابوں میں بس ہماری مثال ہوئے انا کے دکھاوے سے لوگ سر افراز انا نے سر کو اٹھا کر کیا ہمیں پامال ذرا سی عمر میں کس کس کا حل تلاش کریں کھڑے ہیں راستہ روکے ...

    مزید پڑھیے

تمام