Haneef Asadi

حنیف اسعدی

  • 1919

حنیف اسعدی کے تمام مواد

2 غزل (Ghazal)

    ابھی نہ جاؤ ابھی راستے سجے بھی نہیں

    ابھی نہ جاؤ ابھی راستے سجے بھی نہیں ابھی چراغ سر کہکشاں جلے بھی نہیں جبین چرخ پہ گلگونۂ شفق مل کر ابھی تو شام کے سائے کہیں گئے بھی نہیں ابھی ابھی تو جمائی ہے میں نے بزم خیال ابھی افق بہ افق بام و در سجے بھی نہیں عروس شب نے ابھی چاندنی اتاری ہے ابھی تو گیسوئے شب ٹھیک سے کھلے بھی ...

    مزید پڑھیے

    میں جو اپنے حال سے کٹ گیا تو کئی زمانوں میں بٹ گیا

    میں جو اپنے حال سے کٹ گیا تو کئی زمانوں میں بٹ گیا کبھی کائنات بھی کم پڑی کبھی جسم و جاں میں سمٹ گیا یہی حال ہے کئی سال سے نہ قرار دل نہ سکون جاں کبھی سانس غم کی الٹ گئی کبھی رشتہ درد سے کٹ گیا مری جیتی جاگتی فصل سے یہ سلوک باد سموم کا مری کشت فکر اجڑ گئی مرا ذہن کانٹوں سے پٹ ...

    مزید پڑھیے