حفیظ تائب کی غزل

    اک نیا کرب مرے دل میں جنم لیتا ہے

    اک نیا کرب مرے دل میں جنم لیتا ہے قافلہ درد کا کچھ دیر جو دم لیتا ہے رنگ پاتا ہے مرے خون جگر سے گل شعر سبزۂ فکر مری آنکھ سے نم لیتا ہے آبرو حق و صداقت کی بڑھا دیتا ہے جب بھی سقراط کوئی ساغر سم لیتا ہے رات کے سائے میں شبنم کے گہر ڈھلتے ہیں رات کی کوکھ سے خورشید جنم لیتا ہے ذہن بے ...

    مزید پڑھیے

    لفظ سے جب نہ اٹھا بار خیال

    لفظ سے جب نہ اٹھا بار خیال کیسے کیسے کیا اظہار خیال دل میں جب درد کی قندیل جلی تمتمانے لگے رخسار خیال روح کے زخم نہ مرجھائیں کبھی تا ابد مہکے چمن زار خیال غم پہ موقوف ہے تاثیر بیاں غم سے ہے رونق‌ بازار خیال راکب‌ فہم ہے بے بس تائبؔ اور منہ زور ہے رہوار خیال

    مزید پڑھیے

    اک درد سا پہلو میں مچلتا ہے سر شام

    اک درد سا پہلو میں مچلتا ہے سر شام جب چاند جھروکے میں نکلتا ہے سر شام بے نام سی اک آگ دہک اٹھتی ہے دل میں مہتاب جو ٹھنڈک سی اگلتا ہے سر شام کچھ دیر شفق پھولتی ہے جیسے افق پر ایسے ہی مرا حال سنبھلتا ہے سر شام یہ دل ہے مرا یا کسی کٹیا کا دیا ہے بجھتا ہے دم صبح تو جلتا ہے سر شام بنتا ...

    مزید پڑھیے

    پتھر میں فن کے پھول کھلا کر چلا گیا

    پتھر میں فن کے پھول کھلا کر چلا گیا کیسے امٹ نقوش کوئی چھوڑتا گیا سمٹا ترا خیال تو گل رنگ اشک تھا پھیلا تو مثل دشت وفا پھیلتا گیا سوچوں کی گونج تھی کہ قیامت کی گونج تھی تیرا سکوت حشر کے منظر دکھا گیا یا تیری آرزو مجھے لے آئی اس طرف یا میرا شوق راہ میں صحرا بچھا گیا وہ جس کو ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو تیری طلب میں ایذا تھی

    وہ جو تیری طلب میں ایذا تھی میرے ہر درد کا مداوا تھی میں تماشا تھا اک جہاں کے لئے اس پہ بھی حسرت تماشا تھی لاکھ راہیں تھیں وحشتوں کے لیے کس لیے بند راہ صحرا تھی میری رسوائی تھی مری توقیر میری تنہائی تھی میری ساتھی تج کے دنیا کو جب چلے تائبؔ ساتھ اک آرزو کی دنیا تھی

    مزید پڑھیے

    شرر افشاں وہ شرر خو بھی نہیں

    شرر افشاں وہ شرر خو بھی نہیں کوئی تارا کوئی جگنو بھی نہیں جانے طے منزل شب ہو کیسے دور تک نور کی خوشبو بھی نہیں ہم سا بے مایہ کوئی کیا ہوگا اپنی آنکھوں میں تو آنسو بھی نہیں جس بیاباں میں جنوں لایا ہے اس میں تو یاد کے آہو بھی نہیں جانے اس ضد کا نتیجہ کیا ہو مانتا دل بھی نہیں تو ...

    مزید پڑھیے