دل ہی دل میں درد کے ایسے اشارے ہو گئے
دل ہی دل میں درد کے ایسے اشارے ہو گئے غم زمانے کے شریک غم ہمارے ہو گئے جو ابھی محفوظ ہیں تنقید ہے ان کا شعار حال ان کا پوچھئے جو بے سہارے ہو گئے بن کھلے مرجھا گئیں کلیاں چمن میں کس قدر زرد رو کس درجہ ہائے ماہ پارے ہو گئے امن کی طاقت کو کچلا سچ کو رسوا کر دیا دشمنوں کے چار دن میں ...