عشق عہد بے وفا میں بے نوا ہو جائے گا
عشق عہد بے وفا میں بے نوا ہو جائے گا آنکھ استنبول سینہ قرطبہ ہو جائے گا رات لمبی ہے تو باہم گفتگو کرتے رہو بات چل نکلی تو بہتوں کا بھلا ہو جائے گا ان بھری گلیوں میں پھرتا رہ اسی میں خیر ہے اپنے اندر جا چھپا تو لاپتا ہو جائے گا سر بریدہ لفظ مجھ سے رات یہ کہنے لگے اب نہ بولو گے تو ...