دیے سے لو نہیں پندار لے کر جا رہی ہے
دیے سے لو نہیں پندار لے کر جا رہی ہے ہوا اب صبح کے آثار لے کر جا رہی ہے ہمیشہ نوچ لیتی تھی خزاں شاخوں سے پتے مگر اس بار تو اشجار لے کر جا رہی ہے میں گھر سے جا رہا ہوں اور لکھتا جا رہا ہوں جہاں تک خواہش دیدار لے کر جا رہی ہے خلا میں غیب کی آواز نے چھوڑا ہے مجھ کو میں سمجھا تھا مجھے ...