غنی غیور کی غزل

    باغی حدود سے بہت آگے نکل گئے

    باغی حدود سے بہت آگے نکل گئے سورج چھوا نہ تھا کہ مرے ہاتھ جل گئے یہ حیرتوں کے بیچ میں حیرت زدہ نقوش کیسے تماشبین تھے پتھر میں ڈھل گئے جذبات میں کچھ اس طرح اس کا بدن تھا سرخ زنجیر آہنی کے کڑے ہی پگھل گئے بگلوں سے ان کے روپ بھگت بن کے آئے کچھ مکھی کو یار چھوڑ کے ہاتھی نگل گئے ٹیلے ...

    مزید پڑھیے

    برستے روز پتھر دیکھتا ہوں

    برستے روز پتھر دیکھتا ہوں یہی رونا میں گھر گھر دیکھتا ہوں نکل کر خود سے باہر دیکھتا ہوں سمندر اپنے اندر دیکھتا ہوں اپج دگنا ہے تجھ سے اب کے میرا میں تیرے ساتھ مل کر دیکھتا ہوں نظر آتا ہے منظر اور کوئی جگہ اپنی سے اٹھ کر دیکھتا ہوں حساب اپنا یہاں سب دے رہے ہیں بپا ہر سمت محشر ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے شہر کا دستور بابا

    ہمارے شہر کا دستور بابا پریشاں حال ہر مزدور بابا ہوئے خلوت نشیں ہیں لوگ کامل جو ناقص ہیں وہی مشہور بابا نہیں دیکھے کسی نے ان کے چہرے کہاں غلماں کہاں ہے حور بابا چلے ہیں حصہ لینے دوڑ میں پھر ہمارے شہر کے معذور بابا مجھے یاد آ رہی ہے مصحفیؔ کی غضب تھے میرؔ بھی مغفور بابا

    مزید پڑھیے

    خضر جیسا ہے راہبر مجھ میں

    خضر جیسا ہے راہبر مجھ میں مجھ کو درپیش ہے سفر مجھ میں کشتی و نا خدا بہت خطرے کئی طوفاں کئی بھنور مجھ میں خون سے تر بہ تر گلی کوچے دست قاتل ہے زور پر مجھ میں کوئی تیشہ بدست پھرتا ہے قریہ قریہ ہے بس شرر مجھ میں جس طرح سے ہرن پہاڑوں پر لوٹ کر آتا ہے ہنر مجھ میں

    مزید پڑھیے

    آنسوؤں کو روکتا ہوں دیر تک

    آنسوؤں کو روکتا ہوں دیر تک دھند میں کیا دیکھتا ہوں دیر تک کھل گئی الفاظ کی ہیں کھڑکیاں کھڑکیوں سے جھانکتا ہوں دیر تک پیڑ سے عشق گلہری دیکھ کر اس گلی میں دوڑتا ہوں دیر تک خامشی بھی کوئی جھرنا ہے اگر کس لئے پھر بولتا ہوں دیر تک چیونٹیوں کے بل میں پانی ڈال کر کیوں تماشا دیکھتا ...

    مزید پڑھیے

    شام تک بند رہتا ہے کمرہ مرا

    شام تک بند رہتا ہے کمرہ مرا اور کمرے میں تنہا کھلونا مرا دن کو اجلی ردا اوڑھ لیتا ہوں میں دیکھنا رات کو پھر تماشا مرا سچ کہا تھا سبھی مجھ سے ناراض ہیں اب کسی سے نہیں رشتہ ناطہ مرا اپنے شعروں پہ مجھ کو بڑا فخر ہے جانے کیا گل کھلائے گا چرچا مرا دو برس کا ہوں طفل کتابی غنیؔ ہو گیا ...

    مزید پڑھیے

    کھوٹا سکہ کوئی لے ممکن نہیں

    کھوٹا سکہ کوئی لے ممکن نہیں اور بٹوے میں رہے ممکن نہیں عشق تیرے نے اجاڑا میرا دل غیر کی الفت اگے ممکن نہیں ہونے کو ہے عمر تیرے کوچے میں یہ قدم آگے بڑھے ممکن نہیں ڈوب کر بھی جاری رہتا ہے سفر مہر مغرب سے چڑھے ممکن نہیں اپنے تھیلے میں ہی رہنے دو اسے اون کی بلی چلے ممکن نہیں

    مزید پڑھیے