سر کیا زلف کی شب کو تو سحر تک پہنچے
سر کیا زلف کی شب کو تو سحر تک پہنچے ورنہ ہم لوگ کہاں حسن نظر تک پہنچے آج پلکوں پہ مری جشن چراغاں ہوگا کتنے انمول گہر دیدۂ تر تک پہنچے میری راتوں کا اندھیرا بھی دعائیں دے گا اک ستارہ جو اتر کر مرے گھر تک پہنچے کون کہتا ہے کہ خورشید اتر کر آئے ایک جگنو ہی مگر خاک بسر تک پہنچے جو ...