Firdaus Gayavi

فردوس گیاوی

فردوس گیاوی کی غزل

    ظالم ہے وہ ایسا کہ جفا بھی نہیں کرتا

    ظالم ہے وہ ایسا کہ جفا بھی نہیں کرتا رستے سے بچھڑنے کا گلا بھی نہیں کرتا ہر جرم و خطا سے مرے واقف ہے وہ پھر بھی تجویز مرے نام سزا بھی نہیں کرتا انسان ہے وہ کوئی فرشتہ تو نہیں ہے حیرت ہے مگر کوئی خطا بھی نہیں کرتا ہر شخص سے وہ ہاتھ ملا لیتا ہے رسماً لیکن وہ کبھی دل سے ملا بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ ظلم و ستم ڈھائے اور مجھ سے وفا مانگے

    وہ ظلم و ستم ڈھائے اور مجھ سے وفا مانگے جیسے کوئی گل کر کے دیپک سے ضیا مانگے جینا بڑی نعمت ہے جینے کا چلن سیکھیں اچھا تو نہیں کوئی مرنے کی دعا مانگے غم بھی ہے اداسی بھی تنہائی بھی آنسو بھی سب کچھ تو میسر ہے دل مانگے تو کیا مانگے آئین وطن پر تو دل وار چکے اپنا ناموس وطن ہم سے اب ...

    مزید پڑھیے

    دوستوں کی عطا ہے خاموشی

    دوستوں کی عطا ہے خاموشی اب مرا مدعا ہے خاموشی علم کی ابتدا ہے ہنگامہ علم کی انتہا ہے خاموشی درد کے شہر میں ہے گھر میرا میرے گھر کا پتا ہے خاموشی اس طرف میں ہوں اس طرف وہ ہیں بیچ کا فاصلہ ہے خاموشی بھیگتی رات کی ہتھیلی پر مثل رنگ حنا ہے خاموشی دوستو خود تلک پہنچنے کا مختصر ...

    مزید پڑھیے

    امید کی کوئی چادر تو سامنے آئے

    امید کی کوئی چادر تو سامنے آئے میں رک بھی جاؤں ترا گھر تو سامنے آئے میں راہ عشق میں خود کو فنا بھی کر دوں گا مرے حبیب وہ منظر تو سامنے آئے ہمارے بازو کا دنیا کمال دیکھے گی عدو کا کوئی بھی لشکر تو سامنے آئے میں احترام سے دستار اس کے سر باندھوں وہ فن شناس سخنور تو سامنے آئے کروں ...

    مزید پڑھیے

    یہ سچ نہیں کہ تمازت سے ڈر گئی ہے ندی

    یہ سچ نہیں کہ تمازت سے ڈر گئی ہے ندی سکون دل کے لیے اپنے گھر گئی ہے ندی ابھی تو پہنے ہوئی تھی لباس خاموشی یہ کیا ہوا کہ اچانک بپھر گئی ہے ندی ہمیں یہ ڈر ہے کہ پھر سے بپھر نہ جائے کہیں قدم بڑھاؤ کہ اس وقت اتر گئی ہے ندی وہ شخص تڑپا نہ چلایا اور مر بھی گیا پتا چلا نہیں کب وار کر گئی ...

    مزید پڑھیے

    نہ میں یقین میں رکھوں نہ تو گمان میں رکھ

    نہ میں یقین میں رکھوں نہ تو گمان میں رکھ ہے سب کی بات تو پھر سب کے درمیان میں رکھ وہ دھوپ میں جو رہے گا تو روپ کھو دے گا چھپا لے سینے میں پلکوں کے سائبان میں رکھ مرے بدن کو تو اپنے بدن کی آنچ نہ دے جو ہو سکے تو مری جان اپنی جان میں رکھ نہ بیٹھنے دے کبھی عزم کے پرندے کو اڑان بھول نہ ...

    مزید پڑھیے

    اب کیا بتاؤں شہر یہ کیسا لگا مجھے

    اب کیا بتاؤں شہر یہ کیسا لگا مجھے ہر شخص اپنے خون کا پیاسا لگا مجھے خفگی ہو یا جفائیں ہوں یا مہربانیاں ہر رنگ چشم ناز کا اچھا لگا مجھے دیکھا جو غور سے تو وہ جھونکا ہوا کا تھا تم خود ہی چھم سے آئی ہو ایسا لگا مجھے وہ شخص جس سے پہلے کبھی آشنا نہ تھا نزدیک سے جو دیکھا تو اپنا لگا ...

    مزید پڑھیے

    پھر کبھی یہ خطا نہیں کرنا

    پھر کبھی یہ خطا نہیں کرنا سب سے ہنس کر ملا نہیں کرنا تم مرے واسطے کبھی اے دوست زندگی کی دعا نہیں کرنا در و دیوار بھی رلاتے ہیں گھر میں تنہا رہا نہیں کرنا دل کی تصویر خط میں رکھ دینا بات دل کی لکھا نہیں کرنا میں ہوں انساں بہک بھی سکتا ہوں مجھ سے تنہا ملا نہیں کرنا اپنی حد میں ...

    مزید پڑھیے