Fazl Ahmad kariim Fazli

فضل احمد کریم فضلی

  • 1906 - 1981

فضل احمد کریم فضلی کی غزل

    اب وہ مہکی ہوئی سی رات نہیں

    اب وہ مہکی ہوئی سی رات نہیں بات کیا ہے کہ اب وہ بات نہیں پھر وہی جاگنا ہے دن کی طرح رات ہے اور جیسے رات نہیں بات اپنی تمہیں نہ یاد رہی خیر جانے دو کوئی بات نہیں کچھ نہیں ہے تو یاد ہے ان کی ان سے ترک تعلقات نہیں پھر بھی دل کو بڑی امیدیں ہیں گو بہ ظاہر توقعات نہیں عشق ہوتا ہے خود ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو مجھے محبوب ترا غم بھی بہت ہے

    کچھ تو مجھے محبوب ترا غم بھی بہت ہے کچھ تیری توجہ کی نظر کم بھی بہت ہے اشکوں سے بھی کھلتا ہے وہ دل جو ہے گرفتہ کلیوں کے لیے قطرۂ شبنم بھی بہت ہے ہم خود ہی نہیں چاہتے صیاد سے بچنا سازش نگہ‌ و دل کی منظم بھی بہت ہے ہے رشتۂ دزدیدہ نگاہی بھی عجب شے قائم یہ ہوا پر بھی ہے محکم بھی بہت ...

    مزید پڑھیے

    بہار آئی گل افشانی کے دن ہیں

    بہار آئی گل افشانی کے دن ہیں ہماری تنگ دامانی کے دن ہیں عنادل کی غزل خوانی کے دن ہیں گلوں کی چاک دامانی کے دن ہیں جدھر دیکھو کھلے ہیں لالہ و گل یہ خون دل کی ارزانی کے دن ہیں ہوا دامان گل دامان یوسف نظر کی پاک دامانی کے دن ہیں سبک رو ہے نسیم روح پرور مگر پھر بھی گراں جانی کے دن ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں اک نہیں جانستاں اور بھی ہیں

    تمہیں اک نہیں جانستاں اور بھی ہیں بہت حادثات جہاں اور بھی ہیں حسیں اور بھی ہیں جواں اور بھی ہیں غزالان ابرو کماں اور بھی ہیں سبھی کو محبت میں ہوتے ہیں صدمے ابھی کیا ابھی امتحاں اور بھی ہیں چلو دھوم سے جشن ماتم منائیں ہمیں اک نہیں نوحہ خواں اور بھی ہیں نہیں ختم کچھ آسماں پر ...

    مزید پڑھیے

    زندگی ساز شکستہ کی فغاں ہی تو نہیں

    زندگی ساز شکستہ کی فغاں ہی تو نہیں زمزمہ سنج بھی ہے مرثیہ خواں ہی تو نہیں عشق سے باز ہم آتے جو گزرتا وہ گراں لطف تو یہ ہے طبیعت پہ گراں ہی تو نہیں دل برا کیجیے کس طرح بھلا پھر اس سے راحت جاں بھی تو ہے آفت جاں ہی تو نہیں ایسی یادیں بھی ہیں سو زندگیاں جن پہ نثار حاصل زیست غم عمر ...

    مزید پڑھیے

    اسباب زندگی کی ہر اک چیز ہے گراں (ردیف .. ل)

    اسباب زندگی کی ہر اک چیز ہے گراں بس ایک زندگی ہے کہ ارزاں ہے آج کل مشاطگیٔ فلسفۂ مغربی نہ پوچھ زلف خیال اور پریشاں ہے آج کل سر رشتۂ خیال ہوا جا رہا ہے گم کچھ ایسی الجھنوں میں مسلماں ہے آج کل قدرت کی رہبری کے طریقے عجیب ہیں یعنی لباس کفر میں ایماں ہے آج کل بے زحمت شکار ہی کھائے ...

    مزید پڑھیے

    تعمیر نو قضا و قدر کی نظر میں ہے

    تعمیر نو قضا و قدر کی نظر میں ہے آج ایک زلزلہ سا ہر اک بام و در میں ہے کتنے چراغ امید کے جل جل کے بجھ گئے کیا جانے کتنی دیر طلوع سحر میں ہے ہر اک ہے سوئے منزل جاناں رواں دواں ہر ذرہ کائنات کا پیہم سفر میں ہے گم کردہ راہ ہو کے بھی ان سے ہوئے نہ دور گم گشتگی بھی ہے تو اسی رہ گزر میں ...

    مزید پڑھیے

    غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں

    غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں نہ ہو یہ کھیل تو پھر لطف زندگی بھی نہیں نہیں کہ دل میں تمنا مرے کوئی بھی نہیں مگر یہ بات کچھ ایسی کی گفتنی بھی نہیں ابھی میں کیا اٹھوں نیت ابھی بھری بھی نہیں ستم یہ اور کہ مے کی ابھی کمی بھی نہیں ادائیں ان کی سناتی ہیں مجھ کو میری غزل غزل ...

    مزید پڑھیے