Fawad Ahmad

فواد احمد

  • 1951

فواد احمد کی غزل

    ان نگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے

    ان نگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے تب کہیں گیت کا آغاز کیا ہے میں نے ختم ہو تاکہ ستاروں کی اجارہ داری خاک کو مائل پرواز کیا ہے میں نے آپ کو اک نئی خفت سے بچانے کے لیے چاندنی کو نظر انداز کیا ہے میں نے آسمانوں کی طرف اور نہیں دیکھوں گا اک نئے دور کا آغاز کیا ہے میں نے روٹھے لوگوں ...

    مزید پڑھیے

    ہوا نے چھین لیا آ کے میرے ہونٹوں سے (ردیف .. ی)

    ہوا نے چھین لیا آ کے میرے ہونٹوں سے وہ ایک گیت جو میں گنگنا رہا تھا ابھی وہ جا کے نیند کے پہلو میں مجھ سے چھپنے لگا میں اس کو اپنی کہانی سنا رہا تھا ابھی کہ دل میں آ کے نیا تیر ہو گیا پیوست پرانا زخم میں اس کو دکھا رہا تھا ابھی برس رہی تھی زمیں پر عجیب مدہوشی نہ جانے کون فضاؤں میں ...

    مزید پڑھیے

    اس کی گلی میں ظرف سے بڑھ کر ملا مجھے

    اس کی گلی میں ظرف سے بڑھ کر ملا مجھے اک پیالہ جستجو تھی سمندر ملا مجھے میں چل پڑا تھا اور کسی شاہراہ پر خنجر بہ دست یادوں کا لشکر ملا مجھے دریائے شب سے پار اترنا محال تھا ٹوٹا ہوا سفینۂ خاور ملا مجھے تاروں میں اس کا عکس ہے پھولوں میں اس کا رنگ میں جس طرف گیا مرا دلبر ملا ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے لیے مسکراتی سحر ہے

    تمہارے لیے مسکراتی سحر ہے ہمارے لیے رات کا یہ نگر ہے اکیلے یہاں بیٹھ کر کیا کریں گے بلایا ہے جس نے ہمیں وہ کدھر ہے پریشاں ہوں کس کس کا سرمہ بناؤں یہاں تو ہر اک کی اسی پر نظر ہے اجالا ہیں رخسار جادو ہیں آنکھیں بظاہر وہ سب کی طرح اک بشر ہے وہ جس نے ہمیشہ ہمیں دکھ دیئے ہیں تماشہ تو ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے دل کی بجا دی ہے اس نے اینٹ سے اینٹ (ردیف .. ا)

    ہمارے دل کی بجا دی ہے اس نے اینٹ سے اینٹ ہمارے آگے کبھی اس کا نام مت لینا اسی نگاہ سے پینے میں لطف ہے سارا علاوہ اس کے کوئی اور جام مت لینا اسی سبب سے ہے دنیا میں آسماں بدنام تم اپنے ہاتھ میں یہ انتظام مت لینا دل و نظر کی بقا ہے فقط محبت میں دل و نظر سے کوئی اور کام مت لینا یہاں ...

    مزید پڑھیے