Faryad Aazar

فریاد آزر

فریاد آزر کی غزل

    پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی مرثیہ میرا

    پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی مرثیہ میرا کہ میرے بعد بھلا اور کون تھا میرا عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا یہی کہ سانس بھی لینے نہ دے گی اب مجھ کو زیادہ اور بگاڑے گی کیا ہوا میرا میں اپنی روح لیے در بہ در بھٹکتا رہا بدن سے دور مکمل وجود تھا ...

    مزید پڑھیے

    صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے

    صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے اب تو ہر شہر ہے اک شہر طلسمی کہ جہاں جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے ایک لمحہ بھی ٹھہرتا نہیں لمحہ کوئی پیش منظر پس منظر میں بدل جاتا ہے نقش ابھرتا ہے امیدوں کا فلک پر کوئی اور پھر دھند کی چادر میں ...

    مزید پڑھیے

    سراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے

    سراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے یہ کون چھپ گیا صحراؤں میں بلا کے مجھے میں اس کی باتوں میں غم اپنا بھول جاتا مگر وہ شخص رونے لگا خود ہنسا ہنسا کے مجھے اسے یقین کہ میں جان دے نہ پاؤں گا مجھے یہ خوف کہ روئے گا آزما کے مجھے جو دور رہ کے اڑاتا رہا مذاق مرا قریب آیا تو رویا گلے لگا کے ...

    مزید پڑھیے

    اسی فتور میں کرب و بلا سے لپٹے ہوئے

    اسی فتور میں کرب و بلا سے لپٹے ہوئے تمام عمر گنوا دی انا سے لپٹے ہوئے ابھی بھی مل نہ سکی ان کی خامشی کو زباں یہ لوگ اب بھی ہیں صوت و صدا سے لپٹے ہوئے ہوا کے شہر میں بس سانس لینے آتے ہیں وگرنہ اہل زمیں ہیں خلا سے لپٹے ہوئے ہر ایک سمت لگا ہے خموشیوں کا ہجوم یہ کون لوگ ہیں کوہ ندا سے ...

    مزید پڑھیے

    سبب تھی فطرت انساں خراب موسم کا

    سبب تھی فطرت انساں خراب موسم کا فرشتے جھیل رہے ہیں عذاب موسم کا وہ تشنہ لب بھی فریب نظر میں آئے گا اسے بھی ڈھونڈ ہی لے گا سراب موسم کا درخت یوں ہی اگر سبز سبز کٹتے رہے بدل نہ جائے زمیں پر نصاب موسم کا میں جس میں رہ نہ سکا جی حضوریوں کے سبب یہ آدمی ہے اسی کامیاب موسم کا اسی امید ...

    مزید پڑھیے

    اس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے

    اس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے اب بھی کچھ لوگ ہیں زندہ کہ جہاں باقی ہے اہل صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے زندگی عمر کے اس موڑ پہ پہنچی ہے جہاں سود ناپید ہے احساس زیاں باقی ہے ڈھونڈھتی رہتی ہے ہر لمحہ نگاہ دہشت اور کس شہر محبت میں اماں ...

    مزید پڑھیے

    ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا

    ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہو گیا نہ جانے کون سی ادا بری لگی تھی روح کو بدن کا پھر تمام کھیل کود ختم ہو گیا معاہدے ضمیر سے تو کر لیے گئے مگر مسرتوں کا دورۂ وفود ختم ہو گیا بدن کی آستین میں یہ روح سانپ بن گئی وجود کا یقیں ہوا وجود ختم ہو ...

    مزید پڑھیے