Farida Khanum

فریدہ خانم

فریدہ خانم کی غزل

    ہر دکھ کو میں جھیلی ہوں

    ہر دکھ کو میں جھیلی ہوں درد بساط پہ کھیلی ہوں خود سے ہی دل کی بات کروں اپنی آپ سہیلی ہوں کیا کوئی مجھ کو جانے گا ایسی ایک پہیلی ہوں تیرے جہاں کو مہکاؤں چمپا اور چنبیلی ہوں اپنے حصار میں لاؤں تجھے دست دعا کی ہتھیلی ہوں مجھ میں بستا نہیں کوئی پر اسرار حویلی ہوں کروں جو تیرے بس ...

    مزید پڑھیے

    تارے گننے کے زمانے اب کہاں

    تارے گننے کے زمانے اب کہاں عاشقی کے وہ ترانے اب کہاں کون مرتا ہے کسی کے واسطے لیلیٰ مجنوں کے فسانے اب کہاں وہ نہ دریا اور نہ گہری چاہتیں سوہنی اور ماہی دیوانے اب کہاں کون چیرے گا پہاڑوں کے جگر تیشۂ فرہاد جانے اب کہاں آنکھوں آنکھوں میں جو ہوتے تھے کبھی ہیر رانجھے کے نشانے اب ...

    مزید پڑھیے