فرحت عباس کی غزل

    ذکر شب کے سعید ہو گئے کیا

    ذکر شب کے سعید ہو گئے کیا سحر سائے بعید ہو گئے کیا درد کن سے کشید ہو گئے کیا خواب شب سے خرید ہو گئے کیا زندگی کیوں ہے لرزہ بر اندام زلزلے بھی شدید ہو گئے کیا کوئی باقی نہیں طلسم جمال عشق والے شہید ہو گئے کیا ادب آداب کے زمانے گئے سلسلے کچھ مزید ہو گئے کیا ہجر ہجرت ملال غم ...

    مزید پڑھیے

    جب تری ذات کو پھیلا ہوا دریا سمجھوں

    جب تری ذات کو پھیلا ہوا دریا سمجھوں خود کو بھیگی ہوئی راتوں میں اکیلا سمجھوں نام لکھوں میں ترا دور خلاؤں میں کہیں اور ہر لفظ کو پھر چاند سے پیارا سمجھوں یاد کی جھیل میں جب عکس نظر آئے ترا آنکھ سے اشک بھی ٹپکے تو ستارا سمجھوں دستکیں دیتا رہا رات جو گلیوں میں اسے ذہن آوارہ کہوں ...

    مزید پڑھیے

    خیال آتشیں خوابیدہ صورتیں دی ہیں

    خیال آتشیں خوابیدہ صورتیں دی ہیں سخاۓ ہجر نے اب بھی نمائشیں دی ہیں یہ اب جو خواب زمانوں نے دستکیں دی ہیں پس مراد حقائق کی منزلیں دی ہیں مرے لباس کے پیوند مفلسی پہ نہ جا مرے جنوں نے محبت کو خلعتیں دی ہیں مرے مزاج کا موسم عجیب موسم ہے کہ جس کے غم نے بھی ہستی کو رونقیں دی ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    شہر در شہر دیدہ ور بھٹکے

    شہر در شہر دیدہ ور بھٹکے زعم باطل میں تاجور بھٹکے خود سری میں جو معتبر بھٹکے ہم سفر ان کے بے خبر بھٹکے فن کی پگڈنڈیوں پہ چلتے ہوئے کبھی بھٹکے تو بے ہنر بھٹکے ہم جو بھٹکے تو نا شناسا تھے راہبر کیوں ادھر ادھر بھٹکے ایک عالم کو جس نے بھٹکایا کبھی یوں ہو کہ وہ نظر بھٹکے اپنی منزل ...

    مزید پڑھیے

    جلوہ ہے وہ کہ تاب نظر تک نہیں رہی

    جلوہ ہے وہ کہ تاب نظر تک نہیں رہی دیکھا اسے تو اپنی خبر تک نہیں رہی احساس پر گراں رہا احساس کا طلسم یہ عمر کی تکان سفر تک نہیں رہی جن پر تمہارے آنے سے کھلتے رہے گلاب اب دل میں ایسی راہ گزر تک نہیں رہی اک دن وہ گھر سے نکلے نہیں سیر کے لیے اب خواہش نمو میں سحر تک نہیں رہی جس کو ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے مل کر کوئی گفتگو کیجیے

    ہم سے مل کر کوئی گفتگو کیجیے پوری دل کی یہی جستجو کیجیے آپ کی دشمنی کا میں ہوں معترف وار کیجے مگر دو بدو کیجیے دامن دل کی لاکھوں ہوئیں دھجیاں کیجیے کیجیے اب رفو کیجیے پھول موسم میں کانٹوں کے بیوپار سے جسم و جان و جگر مت لہو کیجیے زندگی ہو مگر درد ہجراں نہ ہو ایسے جینے کی کیا ...

    مزید پڑھیے