Faizi Nizam Puri

فیضی نظام پوری

فیضی نظام پوری کی غزل

    تصور میں کوئی آیا سکون قلب و جاں ہو کر

    تصور میں کوئی آیا سکون قلب و جاں ہو کر محبت مسکراتی ہے بہار جاوداں ہو کر چمن میں جب کبھی جاتا ہوں ان کی یاد آتی ہے تمنا چٹکیاں لیتی ہے پہلو میں جواں ہو کر دل وحشت اثر کو ہوش جب آیا تو دیکھا ہے ہوا کے دوش پر اڑتا ہے دامن دھجیاں ہو کر صنوبر سا ہے قد نرگس سی آنکھیں پھول سا چہرہ وہ ...

    مزید پڑھیے

    پھر زبان عشق چشم خونفشاں ہونے لگی

    پھر زبان عشق چشم خونفشاں ہونے لگی پھر حدیث دل سر محفل بیاں ہونے لگی پھر کسی کی شوخ نظروں نے کیا جھک کر سلام پھر محبت ساز دل پہ نغمہ خواں ہونے لگی پھر کسی کی یاد آئی پھر ہوئے آنسو رواں پھر ستاروں کی چمک دل پر گراں ہونے لگی پھر تصور میں کوئی آنے لگا ہے بار بار پھر مری امید کی دنیا ...

    مزید پڑھیے

    بلا سے برق نے پھونکا جو آشیانے کو

    بلا سے برق نے پھونکا جو آشیانے کو چمن میں کیا ہے پتہ چل گیا زمانے کو کسی کا در جو ملا تو کسی کے ہو کے رہے کسی کے واسطے ٹھکرا دیا زمانے کو عروس زیست انہیں کو گلے لگاتی ہے جو دار پر بھی سناتے ہیں حق زمانے کو خلوص دل نہ ہو شامل تو بندگی کیا ہے زمانہ کھیل سمجھتا ہے سر جھکانے کو ابھر ...

    مزید پڑھیے

    گلوں کے چہرۂ رنگیں پہ وہ نکھار نہیں

    گلوں کے چہرۂ رنگیں پہ وہ نکھار نہیں بہار آئی مگر عالم‌ بہار نہیں جو ہاتھ آتا ہے دامن تو چھوڑ دیتا ہوں جنوں نواز ابھی موسم بہار نہیں کسی کی یاد کا عالم نہ پوچھئے مجھ سے کبھی قرار ہے دل کو کبھی قرار نہیں یہ بانکپن یہ ادا یہ شباب کا عالم تم آ گئے تو کسی کا اب انتظار نہیں بہار پر ...

    مزید پڑھیے

    غم جاناں کے سوا کچھ ہمیں پیارا نہ ہوا

    غم جاناں کے سوا کچھ ہمیں پیارا نہ ہوا ہم کسی کے نہ ہوئے کوئی ہمارا نہ ہوا کیا اسی کا ہے وفا نام محبت ہے یہی مہرباں ہم پہ کبھی وہ ستم آرا نہ ہوا لاکھ طوفان حوادث نے قدم تھام لئے میری غیرت کو پلٹنا بھی گوارا نہ ہوا دل وہی دل ہے حقیقت کی نظر میں اے دل سرد جس دل میں محبت کا شرارا نہ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ زندگی میں لطف کا ساماں نہیں رہا

    کچھ زندگی میں لطف کا ساماں نہیں رہا دل ایسا بجھ گیا کوئی ارماں نہیں رہا وہ جوش بے خودی کا ہے عالم کہ آج کل زنداں میں ہم نہیں ہیں کہ زنداں نہیں رہا وہ دل ہی کیا خلش ہی نہ ہو جس میں درد کی وہ گل ہی کیا جو زینت داماں نہیں رہا ہر انقلاب وقت کے سانچے میں ڈھل گیا مرکز پہ اپنے اب کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی تصور میں جلوہ گر ہے بہار دل میں سما رہی ہے

    کوئی تصور میں جلوہ گر ہے بہار دل میں سما رہی ہے نفس نفس گنگنا رہا ہے نظر نظر مسکرا رہی ہے جھکی جھکی سی نگاہ قاتل ہزار غمزے دکھا رہی ہے نہ جانے جاگا ہے بخت کس کا یہ کس کو بسمل بنا رہی ہے نہیں ہے اب تاب ضبط باقی کہیں میں توبہ نہ توڑ بیٹھوں ترا اشارہ نہیں یہ ساقی تو کیوں گھٹا مسکرا ...

    مزید پڑھیے