Faiz ul Hasan Khayal

فیض الحسن خیال

فیض الحسن خیال کی غزل

    اے دل اچھا نہیں مصروف فغاں ہو جانا

    اے دل اچھا نہیں مصروف فغاں ہو جانا غم کی توہین ہے اشکوں کا رواں ہو جانا دل کی آواز بھی مجروح جہاں ہوتی ہے ایسے حالات میں خاموش وہاں ہو جانا میرے آنسو جو گریں ٹانک لو تم جوڑے میں دیکھ لے کوئی تو پھولوں کا گماں ہو جانا اہل ساحل کو بھی اندازۂ طوفاں ہو جائے قطرۂ اشک ذرا سیل رواں ہو ...

    مزید پڑھیے

    جب تک مزاج دوست میں کچھ برہمی رہی

    جب تک مزاج دوست میں کچھ برہمی رہی گویا بجھی بجھی سی مری زندگی رہی جس پر نگاہ لطف و کرم آپ کی رہی حیرت سے ہر نگاہ اسے دیکھتی رہی گو میں رہا کشاکش دوراں سے ہم کنار لیکن مرے لبوں پہ ہنسی کھیلتی رہی لایا ہے عشق نے مجھے ایسے مقام پر خود آگہی رہی نہ خدا آگہی رہی جوش جنوں نے منزل ...

    مزید پڑھیے

    دل جس کا درد عشق کا حامل نہیں رہا

    دل جس کا درد عشق کا حامل نہیں رہا وہ شخص تیرے پیار کے قابل نہیں رہا جب بھی حنائی ہاتھوں سے گیسو سنور گئے آئینۂ بہار مقابل نہیں رہا ہر آستاں سے لوٹ کے آنا پڑا اسے جو تیرے در پہ آنے کے قابل نہیں رہا محرومیاں ہی جس کا مقدر ہیں دوستو وہ محفل نشاط کے قابل نہیں رہا جب تم نہ تھے تو کچھ ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیا سوچ کے اس نے ستم ایجاد کیا

    جانے کیا سوچ کے اس نے ستم ایجاد کیا خود بھی برباد ہوا مجھ کو بھی برباد کیا شمع کی طرح جلے ہم تری محفل میں مگر تو نے کس وقت ہمیں کون سی شب یاد کیا جنبش لب کی اجازت ہے نہ اذن پرواز کس لئے تو نے مجھے قید سے آزاد کیا شکر ہے تو نے مجھے درد کے قابل سمجھا تیری پیماں شکنی نے مرا دل شاد ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے صحرا کو سجایا تھا گلستاں کی طرح

    ہم نے صحرا کو سجایا تھا گلستاں کی طرح تم نے گلشن کو بنایا ہے بیاباں کی طرح رات کا زہر پئے خواب کا آنچل اوڑھے کون ہے ساتھ مرے گردش دوراں کی طرح ڈھونڈھتا پھرتا ہوں اب تک بھی ہیں صحرا صحرا اسی لمحے کو جو تھا فصل بہاراں کی طرح مصلحت کوش زمانے کا بھروسہ کیا ہے جو بھی ملتا ہے یہاں ...

    مزید پڑھیے

    کانچ کے شہر میں پتھر نہ اٹھاؤ یارو

    کانچ کے شہر میں پتھر نہ اٹھاؤ یارو مے کدہ ہے اسے مقتل نہ بناؤ یارو صحن مقتل میں بھی مے خانہ سجاؤ یارو شب کے سناٹے میں ہنگامہ مچاؤ یارو زندگی بکنے چلی آئی ہے بازاروں میں اس جنازے کے بھی کچھ دام لگاؤ یارو جن کی شہ رگ کا لہو پھول کی انگڑائی تھا ان کو اب حال گلستاں نہ بتاؤ ...

    مزید پڑھیے

    صبح نو لاتی ہے ہر شام تمہیں کیا معلوم

    صبح نو لاتی ہے ہر شام تمہیں کیا معلوم زخم خوشیوں کے ہیں پیغام تمہیں کیا معلوم بھول کر بھی جو کسی بزم میں آیا نہ گیا سینکڑوں اس پہ ہیں الزام تمہیں کیا معلوم لوگ گلشن میں تو چلتے ہیں سرافرازی سے ان میں کتنے ہیں تہہ دام تمہیں کیا معلوم کچھ اندھیرے بھی خطا وار تباہی ہیں مگر روشنی ...

    مزید پڑھیے

    لوگ کہتے ہیں کہ قاتل کو مسیحا کہئے

    لوگ کہتے ہیں کہ قاتل کو مسیحا کہئے کیسے ممکن ہے اندھیروں کو اجالا کہئے چہرے پڑھنا تو سبھی سیکھ گئے ہیں لیکن کیسی تہذیب ہے اپنوں کو پرایا کہئے جانے پہچانے ہوئے چہرے نظر آتے ہیں وقت قاتل ہے یہاں کس کو مسیحا کہئے آپ جس پیڑ کے سائے میں کھڑے ہیں اس کو صحن گلشن نہیں جلتا ہوا صحرا ...

    مزید پڑھیے

    وہ جتنے دور ہیں اتنے ہی میرے پاس بھی ہیں

    وہ جتنے دور ہیں اتنے ہی میرے پاس بھی ہیں یہ اور بات ہے خوش ہیں مگر اداس بھی ہیں یہ دیکھنا ہے ہمیں کس کا ذوق کیسا ہے یہاں شراب بھی ہے زہر کے گلاس بھی ہیں انہی پہ تہمت دیوانگی لگاتے ہو جو اتفاق سے محفل میں روشناس بھی ہیں جو روشنی کے لبادے کو اوڑھ کر آئے شب سیاہ کے وہ ماتمی لباس بھی ...

    مزید پڑھیے

    ایک مدت سے سر بام وہ آیا بھی نہیں

    ایک مدت سے سر بام وہ آیا بھی نہیں ہم کو اب حسرت دیدار تمنا بھی نہیں جادۂ شوق میں تنہا بھی ہوں تنہا بھی نہیں کیا حسیں بات ہے رسوا بھی ہوں رسوا بھی نہیں تم جو ناراض ہوئے ہو گئی دنیا برہم اب تو گرتی ہوئی دیوار کا سایہ بھی نہیں کس کو میں دوت کہوں کس کو میں دشمن جانوں سبھی اپنے ہیں ...

    مزید پڑھیے