احسان اصغر کی غزل

    چمکتے سورج اچھالتے تھے کہاں گئے وہ

    چمکتے سورج اچھالتے تھے کہاں گئے وہ جو شامیں صبحوں میں ڈھالتے تھے کہاں گئے وہ بدن میں لرزش کہ دن ڈھلا جا رہا ہے پھر سے جو دن سے گردش نکالتے تھے کہاں گئے وہ ابھی تو ہاتھوں میں حدتیں ان کے ہاتھ کی ہیں ابھی تو ہم کو سنبھالتے تھے کہاں گئے وہ اتارتے تھے غبار لیل و نہار رخ سے اور آئنوں ...

    مزید پڑھیے

    ایسی ہی زمیں بنا رہا تھا

    ایسی ہی زمیں بنا رہا تھا پر اور کہیں بنا رہا تھا اس بت نے جہاں بنایا تھا بت میں برسوں وہیں بنا رہا تھا میں رات بنا رہا تھا لیکن تاریک نہیں بنا رہا تھا سورج تو بنا رہا تھا رخسار مہتاب جبیں بنا رہا تھا ان آنکھوں کو چومتا ہوا میں کچھ اور حسیں بنا رہا تھا افسوس وہ بن نہیں سکا ...

    مزید پڑھیے