darvesh bharti

درویش بھارتی

درویش بھارتی کی غزل

    سامنے جو کہا نہیں ہوتا

    سامنے جو کہا نہیں ہوتا تم سے کوئی گلہ نہیں ہوتا جو خفا ہے خفا نہیں ہوتا ہم نے گر سچ کہا نہیں ہوتا اس میں جو ایکتا نہیں ہوتی گھر یہ ہرگز بچا نہیں ہوتا جانتا کس طرح کہ کیا ہے غرور وہ جو اٹھ کر گرا نہیں ہوتا ناؤ کیوں اس کے ہاتھوں سونپی تھی ناخدا تو خدا نہیں ہوتا تپ نہیں سکتا دکھ ...

    مزید پڑھیے

    خوش فہمیٔ ہنر نے سنبھلنے نہیں دیا

    خوش فہمیٔ ہنر نے سنبھلنے نہیں دیا مجھ کو مری انا ہی نے پھلنے نہیں دیا چاہا نئے سے ریتی رواجوں میں میں ڈھلوں لیکن روایتوں نے ہی ڈھلنے نہیں دیا ایک ایک شے بدلتی گئی میرے آس پاس حالات نے مجھے ہی بدلنے نہیں دیا چلنا تھا ساتھ ساتھ ہمیں عمر بھر مگر ناپائیدار عمر نے چلنے نہیں دیا دل ...

    مزید پڑھیے

    درد اوروں کا دل میں گر رکھئے

    درد اوروں کا دل میں گر رکھئے بے غرض ہو کے عمر بھر رکھئے ہو ہی جائیں گی مشکلیں آسان عقل سا ایک راہبر رکھئے پاؤں ٹھہریں خیال چلتے رہیں ایک ایسا بھی تو سفر رکھئے اس کے دم سے ہے آبرو کا وجود اپنے کردار پر نظر رکھئے ہو اشارہ کہ بہہ سکے نہ ہوا آنکھ میں اتنا تو اثر رکھئے دوستی میں ہے ...

    مزید پڑھیے

    جب سے کسی سے درد کا رشتہ نہیں رہا

    جب سے کسی سے درد کا رشتہ نہیں رہا جینا ہمارا تب سے ہی جینا نہیں رہا تیرے خیال و خواب ہی رہتے ہیں آس پاس تنہائی میں بھی میں کبھی تنہا نہیں رہا آنسو بہے ہیں اتنے کسی کے فراق میں آنکھوں میں اک بھی وصل کا سپنا نہیں رہا درپیش آ رہے ہیں وہ حالات آج کل اپنوں کو اپنوں پر ہی بھروسہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جب محبت کا کسی شے پہ اثر ہو جائے

    جب محبت کا کسی شے پہ اثر ہو جائے ایک ویران مکاں بولتا گھر ہو جائے میں ہوں سورج مکھی تو میرا ہے دل بر سورج تو جدھر جائے مرا رخ بھی ادھر ہو جائے رنج و غم عیش و خوشی جس کے لیے ایک ہی ہوں عمر اس شخص کی شاہوں سی بسر ہو جائے جو بھی دکھ درد مصیبت کا پئے وش ہنس کر کیوں نہ سقراط کی صورت وہ ...

    مزید پڑھیے